افغانستان میں امڈتے طوفان، کیا ہم تیار ہیں؟

کمرے میں ہاتھی موجود ہے لیکن کوئی اس کا نام لینے کو تیار نہیں۔ مصیبت دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ ریت میں سر ڈالنے سے یہ خطرہ نہیں ٹلے گا۔ اس کا ادراک اور مقابلہ ہی اس کا حل ہے۔

امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے کے ایک ہفتے کے اندر ہی اس کی پرتیں کھلنا شروع ہو گئی ہیں(اے ایف پی)

ایک ہفتہ قبل امریکہ اور افغان طالبان نے قطر میں ایک معاہدے پر دستخط کیے، جسے ایک تاریخی امن معاہدہ کہا جا رہا ہے۔ ایک ہفتے کے اندر ہی اس معاہدے کی پرتیں کھلنا شروع ہو گئی ہیں۔

ہمیں نہیں معلوم کہ اس معاہدے کا حشر جنوری 1973 کے امریکہ ۔ شمالی ویت نام معاہدے والا ہو گا یا اپریل 1988 کے جینیوا معاہدے والا، لیکن اس مرحلے پر جو بات یقین سے کہی جا سکتی ہے وہ یہ کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو صرف دو دہائیوں پر محیط امریکی فوجی مہم جوئی سے جان چھڑا کر بھاگنے اور اس کے بدلے تین نومبر کے انتخاب جیتنے کی فکر لاحق ہے۔

دوسری طرف افغانستان اور اس کے پڑوسیوں کے لیے ایک غیر یقینی اور خطرات سے پُر مستقبل آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہا ہے۔ ہمارے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ منڈلاتے ہوئے ان خطرات کے سامنے پاکستان کا مفاد کیا ہے اور کیا ہم ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟

پاکستان افغان جنگ کے اثرات سے ابھی باہر نہیں آیا۔ آج بھی لاکھوں افغان ہماری سرزمین پر موجود ہیں۔ آج بھی ہزاروں افغان بچے اور نوجوان ہمارے ملک میں موجود ہیں جنہوں نے افغانستان نہیں دیکھا۔ بہت سے بچے ایسے ہیں جو اردو اور مقامی زبانیں افغان زبانوں سے بہتر جانتے ہیں۔

ان کی واپسی افغانستان میں امن اور خوشحالی سے جڑی ہوئی ہے۔ جس طرح کے حالات افغانستان میں پیدا ہورہے ہیں ان میں ان لوگوں کی واپسی تو مشکل ہے ہی لیکن زیادہ امکانات اس بات کے ہیں کہ مزید پناہ گزینوں کا سیلاب پاکستان اور ایران کا رخ کرے گا۔ یہ سب ایسے وقت ہوگا جب پاکستان پہلے ہی معاشی بدحالی  اور سیاسی انتشار کا شکار ہے۔ 

دسمبر 1980 میں جب سوویت فوجیں آمو دریا پار کر کے افغانستان میں داخل ہوئی تھیں تو اس وقت 27 سالہ بےنظیر بھٹو نے ایک انٹرویو میں جنرل ضیا الحق کو افغانستان میں امریکی مدد سے ’جہاد‘ کرنے سے منع کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ ایک دن ویت نام کی طرح نکل جائے گا لیکن جغرافیہ کے قیدی اس کے نتائج بھگتیں گے۔ اس وقت ضیا اور ان کے ساتھی جرنیلوں نے جواں سال بےنظیر بھٹو کی ایک نہ سنی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی ڈالروں اور خلیجی پیٹرو ڈالروں کی جھنکار تو نوے کے عشرے کی شروعات میں ختم ہو گئی تھی اور بےنظیر بھٹو کی پیش گوئی کے عین مطابق امریکی جینوا معاہدے کے بعد بوریا بستر باندھ کر اسی طرح نکل گئے تھے جس طرح اب دوحہ معاہدے کے بعد تیاریاں پکڑ رہے ہیں لیکن پاکستان آج بھی 80 کی دہائی کے نتائج بھگت رہا ہے۔

سوویت یونین کے خلاف نام نہاد جہاد کے نتیجے میں پاکستان کی سیاست، معاشرت اور ثقافت میں انتہا پسندی، دہشت گردی اور عدم برداشت کا جو کرونا وائرس داخل ہوا، 42 سال گزر جانے کے باوجود اسے ختم کرنے کی کوئی ویکسین ایجاد نہیں ہوئی۔ 1996 میں طالبان کو کابل میں بٹھانے کے نتائج بھی ہم نے دیکھ لیے۔

پاکستان میں بہت سے فرقہ وارانہ گروہ، جو بہت سی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے، اُس وقت افغانستان کے اندہ پناہ گزین تھے۔ مشرف دور کے وزیر داخلہ معین الدین حیدر کئی بار بتا چکے ہیں کہ جب بھی انہوں نے اس وقت کی طالبان حکومت سے ان گروہوں سے متعلق تعاون کی درخواست کی تو انہوں نے حقارت سے ان کی درخواستوں کو ٹھکرا دیا۔

نائن الیون کے بعد جب امریکی حملوں کا خطرہ منڈلا رہا تھا اس وقت بھی اسامہ بن لادن کو ملک سے نکالنے کی پاکستانی درخواستوں کو طالبان نے مسترد کر دیا تھا۔ باوجود اس حقیقت کے کہ پاکستان ان تین ممالک میں شامل تھا۔ اس وقت کی طالبان حکومت جسے کابل میں بٹھانے میں پاکستان کا کلیدی کردار تھا، ڈیورینڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

نائن الیون کے بعد مشرف ٹولے نے اس صورتحال میں جو پالیسیاں اپنائیں انہوں نے پاکستانی ریاست کو شیزوفرینیا میں مبتلا کر دیا۔ ایک طرف امریکہ کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے ڈالرز لیے گئے، تو دوسری طرف افغانستان کے ساتھ ملنے والے سرحدی علاقوں میں طالبان نظریے کی حامی جماعتوں کی حکومتوں کو بٹھایا گیا۔

امریکہ کو بھی خوش کیا گیا اور ساتھ ہی پاکستان بھاگ کر آنے والے طالبان کو پناہ گاہیں بھی فراہم کی گئیں۔ یہی نہیں بلکہ القاعدہ  اور اس سے ملتی جلتی تنظیموں کو پاکستان کے فاٹا علاقوں میں آنے اور قدم جمانے کا موقع بھی دیا گیا۔ یہی وہ وقت تھا جب افغان طالبان اور القاعدہ کی تخم ریزی سے پاکستانی طالبان کا پودہ پیدا ہوا۔ قبائلی علاقوں میں صدیوں سے قائم ملک نظام کو ختم کیا گیا۔ 

2008 میں جمہوریت کی واپسی کے بعد سے ان پالیسیوں کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ آپریشن راہ نجات، مالاکنڈ، سوات، جنوبی وزیرستان اور آخر میں شمالی وزیرستان، پشاور آرمی پبلک سکول سمیت ملک بھر میں متعدد قتل گاہیں جن کے نتیجے میں ایک لاکھ کے لگ بھگ پاکستانی ہلاک ہوئے۔  ان میں ہزاروں فوجی، پولیس والے، پولیو ورکرز شامل ہیں۔ ہمیں یاد دلانے کے لیے کافی ہیں کہ ان پالیسیوں کے نتیجے میں اس ملک کو کیا ملا ہے۔

اب جبکہ 10 سالہ کوششوں کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے، امریکہ اپنی داخلی سیاست کے تقاضوں کے تحت افغانستان طالبان کے حوالے کر کے دوبارہ بھاگنے کی تیاریوں میں ہے۔ صرف پچھلے ایک ہفتے میں انتہا پسند مذہبی حلقوں، جماعتوں اور دانش وروں کا رد عمل دیدنی ہے۔

خیبر پختونخوا اور بلوچستان سمیت کئی علاقوں سے طالبان کے حمایتی گروہوں کے دوبارہ منظم ہونے اور ان کی طرف سے شادیانے بجانے کی خبریں آ رہی ہیں۔ یہ حلقے تاثر دے رہے ہیں کہ امریکہ کو شکست ہو گئی ہے۔ یہ لوگ اس تلخ حقیقت کی طرف دیکھنے کے لیے تیار نہیں کہ دو دہائیوں پر محیط اس جنگ نے پاکستان اور افغانستان کی معیشت، ثقافت اور معاشرت کے ساتھ کیا کیا ہے۔

طالبان نے امریکہ کے ساتھ مسقتبل کے لیے کیا وعدہ  وعید کیے ہیں، وہ تو ان خفیہ دستاویزات میں چھپے ہوئے ہیں جن کی موجودگی کو امریکہ نے تسلیم تو کیا ہے لیکن جن کی تفصیلات سامنے نہیں لائی گئیں۔

امریکہ افغانستان سے نکلنے کے بعد اپنے مفادات کا انتظام کر لے گا۔ کیا ہم نے بعد از انخلا حالات کے لیے تیاری کی ہے؟ کیا ہم نے مختلف منظرناموں پر سوچ بیچار کیا ہے؟ پاکستان کے مفاد میں کیا ہے؟ افغانستان میں ہمارے دوست اور دشمن کون ہیں؟ بھارت، روس، چین، ایران بعد از انخلا کیا کریں گے؟

ایک بات جو کھل کر سامنے آ گئی ہے وہ یہ ہے باوجود اس کے کہ زلمی خلیل زاد نے علاقے کے ممالک کے سینکڑوں دورے کیے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ بعد از انخلا معاملات پر ایک اتفاق رائے موجود ہے، پچھلے ہفتے کے واقعات بتا رہے ہیں کہ حقائق یکسر مختلف ہیں۔

ابھی معاہدے کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ طالبان نے افغان حکومت پر حملے بحال کرنے کا اعلان کردیا۔ دوسری طرف دوحہ معاہدے میں قیدیوں کی رہائی کا وعدہ کیا گیا لیکن اس کے اہم فریق افغان حکومت نہ اس معاہدے میں فریق تھی اور نہ انہیں اس عمل میں شریک کیا گیا۔ افغان حکومت نے اس پر عمل کرنے سے انکار کیا اور اس معاملے کو بین الافغان مذکرات کے ایجنڈے میں شامل کرنے کا اشارہ دیا۔

جب امریکہ نے افغان افواج کی مدد کے لیے طالبان پر حملہ کیا تو افغانستان سے متعلق روسی نمائندہ خصوصی ضمیر کابلوف طالبان کی حمایت کے لیے کھڑے ہوگئے۔ پڑوسی ملک ایران نے تو اس معاہدے کو ہی مسترد کردیا ہے۔ اس سے معاملے کی پیچیدگی کا با آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اس وقت افغانستان انتشار کی ہمہ جہتی تصویر پیش کر رہا ہے۔ حکومتی حلقوں میں بھی شدید انتشار ہے۔ ایسے وقت جب طالبان اور افغان حکومت میں 10 مارچ کی مذاکرات کی ڈیڈ لائن چند دن دور ہے اور قیدیوں کی رہائی سے متعلق نیا تنازع کھڑا ہوا ہے، پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے ایک غیر محتاط بیان پر افغان وزارت خارجہ نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

قریشی کا بیان ماضی کی اس خارجہ پالیسی کا تسلسل ہے جس کی جڑیں سٹریٹجک ڈیپتھ میں ہیں۔ کئی بار یہ کہا گیا کہ ہم نے اس پالیسی کو ترک کر دیا ہے لیکن بار بار کے واقعات بتاتے ہیں کہ ہم ابھی تک اس پالیسی سے بندھے ہوئے ہیں۔

اگر افغانستان میں بعد از انخلا حکومتی نظام پر اتفاق رائے قائم نہ ہوا تو یہ نہ صرف افغانستان کی بدنصیبی ہو گی بلکہ پاکستان کی بھی بدنصیبی ہو گی۔ ڈر اس بات کا ہے کہ طالبان اپنی ماضی کی روایات پر چلتے ہوئے اقتدار پر اپنی اجارہ داری قائم کریں گے اور نہ صرف افغانستان کے لسانی، نسلی، قومیتی، ثقافتی اور مذہبی تنوع کو نظر انداز کریں گے بلکہ نائن الیون کے بعد جنم لینے والی ایک نئی پود کی خواہشات اور نظریاتی ساخت کو بھی نظر انداز کریں گے۔

اگر ایسا ہوا تو یہ تباہی کا نسخہ ہوگا۔ اس ٹوٹ پھوٹ کے بعد پڑوسی ممالک اس شکست و ریخت سے اپنی پسند کے ٹکڑے اٹھائیں گے اور یہیں سے بدقسمتی کا آغاز ہو گا۔اگر طالبان افغانستان میں اپنی جارہ داری قائم کریں گے تو وہ پاکستان کی تابعداری ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ مُلا ضعیف کے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو سے بھی  اندازہ ہوتا ہے کہ طالبان کا پاکستان کی طرف کیا رویہ ہو گا۔

افغان طالبان کے اندر نائن الیون کے بعد پاکستانی ریاست کی طرف سے بے وفائی کی کسک موجود ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ پاکستان کے اندر انتہا پسند تنظیموں اور عناصر کی حمایت اور مدد نہ کریں۔ اتنی قربانیاں دینے کے بعد کیا ہم پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی نئی لہر کے لیے تیار ہیں؟ اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ہم معاشی اور سیاسی بدحالی کی انتہا کو چھو رہے ہیں۔

یہ سب ایسے وقت ہو گا جب امریکہ اپنا الو سیدھا کر کے علاقے سے رفوچکر ہو جائے گا۔ امریکہ کا اس خطے میں اتحادی بھارت ہے، پاکستان نہیں۔ اس کی کوئی ضمانت ہے کہ یہی امریکہ کل طالبان کے ساتھ مل کر سی پیک کو سبوتاژ نہ کرے اور چین کے خلاف سازشیں نہ کرے؟ سیاست اور بین الریاستی تعلقات میں مفادات مستقل ہوتے ہیں دوست اور دشمن بدلتے رہتے ہیں۔

کیا ہم نے اس کی پیش بندی کی ہے؟ کل طالبان کی طاقت کے سامنے افغانستان کی نئی پود اور اقلیتی گروہ ہوں گے۔ کیا ہم نے ان کے ساتھ کوئی تعلقات قائم کیے ہیں؟ ہم تو تاریخی طور پر اپنے تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں ڈالنے کے عادی ہیں۔

مت بھولیں کہ اگر افغانستان کا شیرازہ بکھرتا ہے تو یہ وہاں تک محدود نہیں رہے گا۔ ہمارے مفاد میں یہ ہے کہ نہ صرف افغانستان ایک پرامن اور خود مختار ملک ہو بلکہ اس کی وحدانیت برقرار رہے۔ اس کی وحدانیت ہماری سالمیت کی ضمانت ہے۔ اگر افغانستان مذہبی انتہا پسندی کی طرف جاتا ہے تو اس کے اثرات ڈیورینڈ لائن اور تازہ بچھائی گئی باڑ روک نہیں پائے گی۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ مذکورہ بالا معاملات جو ہماری زندگی اور موت کے مسائل ہیں نہ حکومت میں ان پر کوئی گفتگو ہوتی ہے، نہ شام کو ٹی وی چینلوں پر، نہ ذرائع ابلاغ میں اور نہ حزب اختلاف کی جماعتوں میں۔ ایک خوف ناک خاموشی اس معاملے پر طاری ہے۔

کمرے میں ہاتھی موجود ہے لیکن کوئی اس کا نام لینے کے لیے بھی تیار نہیں۔ مصیبت دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ ریت میں سر ڈالنے سے یہ خطرہ نہیں ٹلے گا۔ اس کا ادراک اور مقابلہ ہی اس کا حل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر