یوم ’نکبہ‘ اور اسرائیلی مظالم کا تسلسل

غزہ پر جاری آتش وآہن کی بارش اور شیخ جراح کے باسیوں کی جبری بیدخلی کے خطرات سے ’نکبہ‘ کے زخم ایک مرتبہ پھر ہرے بھرے اور تازہ ہو گئے ہیں۔

درو دیوار پر لکھے فلسطینیوں کے  خواب (اے ایف پی)

یوم ’نکبہ‘ ہر فلسطینی کے لیے ایک ایسا دن ہے جب تباہی و بربادی اور قتل وغارت گری کی داستانیں فلسطینی شہروں، قصبات اور دیہات میں یہودی اور صہیونی جتھوں، مسلح گروہوں اور باقاعدہ فوجی یونٹوں نے یوں رقم کیں کہ ساڑھے سات لاکھ فلسطینی گھروں سے، زمینوں سے اور اپنے علاقوں سے نکال باہر کیے گئے۔ برطانیہ سمیت مغربی قوتیں اسرائیل کی پشت پر کھڑی رہیں۔

’نکبہ‘ کے 73 سال بعد آج بھی فلسطینیوں کو مشرقی بیت المقدس کے علاقے شیخ جراح میں ایسی ہی جبری بیدخلی کا سامنا ہے اور یہاں پر عالمی طاقتیں اور ان کی پروردہ اسرائیلی عدالتیں اسے قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے خم ٹھونک کر سامنے کھڑی ہیں۔

یہودی آبادکار، اسرائیلی فوج اور پولیس فسلطینیوں کی زندگی میں ہر لمحہ بپا ہونے والے ’نکبہ‘ کے نئے کردار ہیں۔

اسرائیلی مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند  کرنے کی پاداش میں فلسطینی مسجد اقصیٰ میں نماز اور اعتکاف کے دوران بھی محفوظ نہیں رہے۔

اسرائیلی فوج نے مسجد کے اندر گھس کر سٹن گرینڈز، بدبودار پانی، ربڑ کی گولیوں کی  شکل میں ان کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔

’نکبہ‘ [catastrophe] کا عربی مفہوم قیامت کبریٰ ہے۔ فلسطینی عوام اس دن کو 1947-8 میں 7 لاکھ 50 ہزار فلسطینیوں کو ان کے وطن اور گھروں سے قوت کے استعمال سے جلاوطن کرنے اور ان کی تباہ حال زمینوں، جائیدادوں اور دیگر ملکیتی عمارتوں پر اسرائیل بنانے کے موقع کے طور پر مناتے ہیں۔ اس دن کو منانے کے لیے 15 مئی کا دن مقرر کیا گیا۔ یہ وہ تاریخ ہے جس پر اسرائیل نے اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا۔

یوم ’نکبہ‘کو غلط ثابت کرنے کے لیے یہودی، اسرائیل میں جوابی مظاہرے کرتے ہیں۔ ان مظاہروں میں ایسے پمفلٹ تقسیم کیے جاتے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ فلسطینی عربوں کی نصف آبادی کو قوت کے ذریعے نکال دینے کا فلسطینی دعویٰ محض افسانہ ہے اور میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔

اسرائیلیوں میں یوم ’نکبہ‘ کو نظر انداز کرنے کا رحجان بھی سامنے آنے لگا ہے۔ وہ اس لفظ پر عمومی مباحث میں بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ وزیر اعظم نیتن یاہو کے حامی اخبار Yisrael Hayom نے تین سال پہلے ان فلسطینی طلبہ کو ایک سکینڈل کے کرداروں کے طور پر نمایاں طور پر پیش کیا تھا جو 1948 کے واقعات کی یاد منا رہے تھے۔

فلسطینی پناہ گزینوں کو ایسے لوگ قرار دیا گیا جن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا ہو۔ ایسا ہی بیانیہ شیخ جراح سے بیدخلی کا سامنا کرنے والے فسلطینیوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اور اسرائیلی عدالتیں کمال درجے کا نسلی امتیاز روا رکھتے ہوئے اس کی روشنی میں فیصلے صادر کر رہی ہیں۔

اسرائیلی تنظیم Zachrot کی ڈائریکٹر لیات روزن برگ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی آزادی کے دن اور یوم ’نکبہ‘ کے درمیان ایک ہفتہ حائل ہوتا ہے۔ یہ ہفتہ ہر بار سخت کشیدگی میں گزرتا ہے۔

روزن برگ کی تنظیم کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیلیوں کو قائل کیا جائے کہ وہ یوم ’نکبہ‘ پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کریں۔ جن فلسطینیوں کو نکال دیا گیا تھا، ان کے واپسی کے حق کو تسلیم کر لیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ہر سال دیکھتے اور سنتے ہیں کہ یوم ’نکبہ‘ کے بارے میں عوامی مباحث ہوتے ہیں، ذرائع ابلاغ میں بھی اس دن کی مناسبت سے پروگرام نشر ہوتے ہیں، لیکن میں کہہ سکتی ہوں کہ ماضی میں یہ مباحث زیادہ کھلے انداز میں ہوئے۔ گویا اس موضوع پر عوامی مخالفت میں کمی آ رہی ہے، لوگ ایک دوسرے کی بات سننا چاہتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے یہ رحجان صرف عوامی سطح پر ہے۔ حکومتی سطح پر ایسا کچھ نہیں ہونے جا رہا۔

یہ رجحان اس وقت بھی دیکھا اور محسوس کیا گیا جب لندن چینل 10 پر روزن برگ کو ایک ٹاک شو میں مدعو کیا گیا۔ اس شو کو اسرائیل کے سب سے زیادہ اہم نیوز شو کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس میں Zochort کی طرف سے متعارف کرائی جانے والی موبائیل ایپ پر بات کی گئی۔ اس ایپ کو Nakaba کا نام دیا گیا۔ یہ ایپ اپنے استعمال کرنے والوں کو بتاتی اور دکھاتی ہے کہ 1948 میں فلسطینی آبادی کو ان کے دیہات سے کس طرح بے دخل کیا گیا۔

’نکبہ‘ ایپ جی پی ایس کی مدد سے ایک نقشہ پیش کرتی ہے۔ آپ اس کی مدد سے ایک تباہ حال اور اجڑے گاؤں کے درمیان سے یوں گزرتے جاتے ہیں گویا کہ آپ اس دن وہاں موجود تھے اور سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ ان میں بہت سے دیہات ایسے ہیں جن پر یہودی بستیاں بنا دی گئی ہیں۔

یہاں خالی جگہوں پر جیوش نیشنل فنڈ نے جنگلات اگا دیے ہیں۔ ان جنگلات کو نقشے میں ایک پن کی مدد سے دکھایا گیا ہے۔ یہ سہولت بھی دی گئی ہے کہ استعمال کرنے والا اس ایپ کا باقاعدہ خریدار بن جائے تو اس کے موبائل پر نئی تصاویر کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

یہودی حلقے لیات روزن برگ کے کام کو اس طرح سے پیش کرتے ہیں گویا کہ وہ کوئی ایسی خاتون ہیں جو احمقانہ باتیں کرتی ہیں، اس کے پیش کردہ حقائق ایسے نہیں جن پر کوئی صاحب فہم یقین کر سکے۔

یہ سب افسانے، قصے اور کہانیاں ہیں ایک حالیہ ٹی وی پروگرام میں لیات روزن برگ سے اسرائیل کے منجھے ہوئے اینکر پرسن یارون لوزن نے ایسے اندار میں سوالات کیے جیسے کوئی دادا اپنی پوتی سے کچھ دریافت کر رہا ہو۔ اس گفتگو کا لب لباب ایسا تھا کہ یہ ایپ ایک غیرسیاسی موضوع کے بارے میں ہے۔

اسرائیل یوم ’نکبہ‘ کے بارے میں عام طور پر ایسا رویہ اختیار کرتا ہےجس سے معلوم ہو کہ یوم ’نکبہ‘ کوئی عام سا دن ہے اور اس دن چند سر پھرے کچھ سرگرمیاں کرتے رہتے ہیں۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

وہ [اسرائیل] اس بات کی مکمل نفی اور تردید کرتا ہے کہ 1948 میں عربوں کو ان کی آبادیوں سے وحشیانہ قوت استعمال کر کے نکال دیا گیا تھا۔

لیکن اسرائیل یہ حقیقت بھول جاتا ہے کہ تاریخ کو شہادت فراہم کرنے والے ابھی ایسے عرب اب بھی باقی ہیں جو اس قیامت خیز وقت میں خود موجود تھے۔ اسرائیل کے ایک اور دائیں بازو کے مبصر اری شاویت امریکی میڈیا کے ایک پروگرام میں میں شریک گفتگو تھے۔ انہوں نے ایک مختلف زاویہ سے بات کی۔ انہوں نے اللد نامی شہر سے عربوں کو نکالنے والے یہودیوں، جتھوں اور گروہوں کو سراہا اور کہا کہ انہوں نے بالکل درست کام کیا۔ اس نے اس دوران میں ہونے والے قتل عام کی بھی حمایت کرتے ہوئے کسی نوعیت کی شرم محسوس نہیں کی۔ انہوں نے یہودی ریاست کے قیام کے لیے ان واقعات کو لازمی قرار دیا۔ یہی وہ رویہ ہے جس کی مذمت روزن برگ کی تنظیم کر رہی ہے۔

یوم ’نکبہ‘ کے حوالے سے ان دنوں فلسطینی حلقوں میں ایک نئی سوچ اور بھی ابھری رہی ہے۔ یہ بات کہی جا رہی ہے کہ فلسطینی مزاحمت کی ناکامی کی وجہ یہ نہیں کہ قربانیاں دینے والے تھک گئے بلکہ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ عرب اشرافیہ نے سامراجی قوتوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔

یہ طبقات اور فلسطینی لیڈر شپ اب سفارت کاری پر زیادہ انحصار کرنے لگی ہے۔ یہ قیادت مغربی قوتوں کی بے پناہ طاقت سے مرعوب ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی برادری اور عرب لیگ اسرائیل کے قبضے کے خلاف کسی مزاحمت کے قابل نہیں رہے ہیں۔

تاریخ کا سبق یہ ہے کہ 1918 میں برطانوی عہد میں یہودیوں کا پہلا فوجی یونٹ فلسطین میں داخل ہوا تھا۔ بیت المقدس میں اس یونٹ کی قیادت جنرل اییلسن بے کر رہے تھے۔ یہ وہی جنرل تھے جنہوں نے اس خطے کو فتح کرنے والے دستے کی قیادت کی تھی۔ یہ یونٹ برطانوی کابینہ کے اس اعلان کے بالکل ایک سال بعد فلسطین میں داخل ہوا تھا کہ یہاں یہودیوں کو  گھر دیا جائے گا۔ یہ اعلان برطانیہ نے بالفور معاہدے کے بعد ہی کر دیا تھا۔

1920کے عشرے کے آغاز سے ہی فلسطینی یہ جان چکے تھے کہ یہودی ان کے ملک پر قابض ہو رہے ہیں۔ انہوں نے اس قبضے کے خلاف مزاحمت منظم کرنا شروع کر دی تھی۔ انہوں نے احتجاجی جلسے کرنے اور جلوس نکالنے کے ساتھ سول نافرمانی کی تحریک کا بھی آغاز کر دیا تھا۔

سیاسی لیڈر شپ لندن وفود بھیج رہی تھی جس کا موضوع تھا کہ فلسطینی مسئلے کا کیا بنے گا؟ یہ وفود اپنے عرب بھائیوں سے بھی مدد اور تعاون طلب کرتے، درخواست کرتے رہ گئے۔ کوئی ان کی مدد کو پہنچا اور نہ ہی کسی نے ان کا ساتھ ہی دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک طرف برطانیہ یہودیوں کو دنیا کے مختلف حصوں سے جہازوں میں لاد کر فلسطین لا رہا تھا جبکہ فلسطینی رہنماؤں کی ناکامی یہ رہی کہ وہ صرف سفارت کاری سے اس معاملے کو حل کرنے میں لگے رہے۔ برطانیہ نے صہیونی ملیشیاؤں کو مسلح کرنے کا سلسلہ تیزی سے مکمل کیا۔

اس کے ساتھ ہی فلسطینیوں پر دہشت گردی کے مسلح حملے ہونے شروع ہو گئے تھے۔ فلسطینیوں کو برطانیہ نے ان کے علاقوں اور دیہات تک محدود ہی نہیں کیا بلکہ قید کر دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ فلسطینیوں کو گھیر کر اور انہیں نہتا کر کے ان کا قتل عام کیا گیا اور جو بچ رہے انہیں انتہائی بے دردی سے کسمپرسی کے حال میں جلاوطن ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔

برطانوی فوجی قوت اس سارے معاملے میں بنیادی کردار ادا کر رہی تھی۔ اس فوجی قوت کے خلاف عوامی مزاحمت 1936 میں ہی اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ پورے فلسطین میں بہت بڑے احتجاجی پروگرام ہو رہے تھے۔ برطانوی فوج مظاہرین کو گرفتار کر لیتی، ان کے گھر مسمار کر دیے جاتے۔

فلسطینی یہ جنگ 1948 میں نہیں ہارے تھے۔ انہیں تو 1930 کے عشرے میں ہی ظلم، بے دخلی، قتل وغارت، قید وبند اور دیگر طریقوں سے بے بس کر دیا گیا تھا۔ صہیونیت کا عفریت پورے تباہ کن انداز میں سامنے تھا۔

صہیونیوں کو مسلح کرنے میں برطانیہ نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ 1939 تک فلسطینی عوام قتل وغارت گری سے بے حال کیے جا چکے تھے۔ ان کے لیے ہر دن یوم نکبہ تھا جو تباہی وبربادی کی نئی داستانیں رقم کر جاتا تھا۔

جب عوامی مزاحمت کو راستہ نہ ملے اور لیڈر شپ کے سامنے کوئی راہ ایسی نہ رہے جس سے تازہ ہوا کا جھونکا ہی آ سکے تو مزاحمت کو کچلنا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔ 1948 کے وہ مہ وایام اسی کیفیت کے ترجمان بنے۔ لاکھوں فلسطینی بے گھر، بے دخل کر دیے گئے اور یوم نکبہ تباہی، بربادی، قتل وغارت کا نشان بن کے رہ گیا۔

غزہ پر جاری آتش وآہن کی بارش اور شیخ جراح کے باسیوں کو ان کے گھروں سے بیدخلی کے خطرات دیکھتے ہوئے اس دن کی آمد پر ’نکبہ‘ کے زخم ہرے بھرے اور ایک مرتبہ پھر تازہ ہو گئے ہیں۔

دنیا کے 57 ملک اور ان کی نمائندہ تنظیمیں ماضی کی طرح سفارتی کوششوں اور مذاکرات کی میز سجائے بیٹھے ہیں جبکہ اسرائیلی جنگی مشین فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہے اور کوئی اس کا ہاتھ روکنے والا نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر