بیت المقدس میں صرف ایک کلومیٹر پر محیط علاقہ ایسا ہے جہاں انسانیت کے مقدس ترین مقامات واقع ہیں اور اسے دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی کے لیے کسی نہ کسی اعتبار سے مقدس اور محترم ہے۔
بیت المقدس کی ایک پہاڑی پر ایک احاطہ قائم ہے حرم الشریف کہا جاتا ہے ۔ یہ مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے بےحد مقدس ہے۔ اس احاطے کی دیکھ بھال اردن کے ایک وقف کے ذمے ہے اور یہودیوں کو اس کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔
حرم الشریف میں سنہرے گنبد والی ایک عمارت اکثر پوسٹروں پر دکھائی دیتی ہے، یہی عمارت بیت المقدس کی سب سے مشہور علامت ہے۔ اسے بہت سے لوگ مسجدِ اقصیٰ سمجھتے ہیں لیکن دراصل یہ قبۃ الصخرہ یا Dome of the Rock ہے۔ یہ 691 عیسوی میں اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دور میں تعمیر ہوئی تھی اور دنیا میں قدیم ترین اسلامی عمارتوں میں سے ایک ہے۔
قبۃ الصخرہ سے صرف چند قدم کے فاصلے پر سرمئی گنبد والی مسجدِ اقصیٰ ہے جسے قبلۂ اول ہونے کے ناطے مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام کا درجہ حاصل ہے۔ یہیں سے حضرت محمد ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔
اس جگہ پر ممتاز صحابی اور دوسرے خلیفہ حضرت عمر بن خطاب نے ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کروائی تھی، جسے اموی دور میں توسیع دی گئی۔ تاہم بعد میں یہ زلزلوں میں تباہ ہوتی رہی اور اس کی جگہ نئی عمارتیں بنتی رہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی احاطے کی باہری جانب ایک دیوار ہے جسے عربی میں ’حائط البراق‘ یا دیوارِ براق کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں اسے ’ویسٹرن وال‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں حضرت محمد ﷺ نے معراج پر جاتے وقت اپنی سواری براق کو باندھا تھا۔ دوسری طرف یہودیوں کے مطابق یہاں دوسرا معبد قائم تھا اس لیے یہ یہودیوں کے نزدیک بھی مقدس مقام ہے۔
حرم الشریف سے صرف نصف کلومیٹر دور مسیحیت کا متبرک ترین مقام واقع ہے، جسے کلیسائے مقبرہ مقدس یا Church of the Holy Sepulcher کہا جاتا ہے۔ مسیحیوں کے عقیدے کے مطابق یہاں حضرت عیسیٰ کو مصلوب کیا گیا تھا اور یہیں ان کا خالی مقبرہ ہے۔
تین بڑے مذاہب کی تین اہم ترین عبادت گاہوں کے ایک جگہ اکٹھا ہونے کی وجہ سے یہ چھوٹا سا علاقہ بہت بڑا فلیش پوائنٹ بھی بن گیا ہے۔