’بچے کہتے ہیں کہ گھر کے اندر آ جائیں کہیں سر پر جہاز نہ گر جائے‘

کراچی میں پی آئی اے طیارہ گرنے کے حادثے کو آج ایک سال مکمل ہو گیا ہے لیکن جس گلی میں طیارہ گرا وہاں لوگوں کے دلوں سے خوف گیا اور نہ ہی ان کے ٹوٹے مکان بن سکے۔

مسافروں سے بھرے ایک بھاری بھرکم طیارے کا زمیں بوس ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں۔ اس خوف ناک حادثے سے متاثر ہر شخص آج بھی اپنے دل میں کہیں نہ کہیں یہ خوف لیے پھرتا ہے کہ اگر کوئی جہاز دوبارہ گر گیا تو کیا ہوگا؟

اس کیفیت کا اندازہ اس وقت ہوا جب کئی ماہ گزرنے کے بعد ایک بار پھر اس گلی میں قدم رکھا تو پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔

گلی میں قدم رکھا ہی تھا کہ انتہائی کم فاصلے پر سر کے اوپر سے ایک جہاز گرجتا ہوا گزرا۔ انجن کی زور دار آواز سے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک چھ، سات سالہ بچی نے رونا شروع کر دیا۔

بچی یقیناً اسی گلی کی رہائشی تھی، جہاں جگہ جگہ تعمیری سامان، بجری، اینٹیں اور سریا پڑا تھا۔

بچی گلی میں بچی کچی جگہ پر اپنے چند دوستوں کے ساتھ کھیلنے میں مگن تھی مگر جہاز کی گرج دار آواز سے اس پر نجانے کیا خوف طاری ہوگیا۔

بچی کے والد نے اسے سمجھا بجھا کے گھر کے اندر بھیجا تو میں نے ان سے دریافت کیا کہ ’کیا یہ ہمیشہ جہاز کی آواز سے اسی طرح ڈرتی ہے؟ اس پر انہوں نے بتایا ’پہلے اتنا نہیں ڈرتی تھی لیکن اس حادثے کے بعد زیادہ ڈرنے لگی ہے۔‘

22 مئی، 2020 کو دوپہر ڈھائی بجے لاہور سے کراچی آنے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی پرواز پی کے 8303  کا طیارہ لینڈنگ سے چند منٹ قبل جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے قریب گنجان رہائشی علاقے ماڈل کالونی میں گر پر تباہ ہوگیا تھا۔

طیارے میں 91 مسافر اور عملے کے آٹھ افراد سوار تھے۔ حادثے میں 97 افراد ہلاک ہوئے جب کہ دو مسافر معجزانہ طور پر بچ گئے۔

حادثے کے کئی ماہ بعد تک تحقیقات کا سلسلہ جاری رہا۔ گذشتہ سال 24 جون کو شائع ہونے والی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں جہاز کے پائلٹ اور ایئر ٹریفک کنٹرولر کو حادثے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔

تاہم حتمی رپورٹ ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ ایک سال مکمل ہونے کے موقعے پر ایئر کرافٹ ایکسیڈنٹ انوسٹیگیشن بورڈ (اے اے آئی بی) نے بیان جاری کیا ہے جس کے مطابق پی آئی اے حادثے کی حتمی رپورٹ اپنے آخری مراحل میں ہے اور یہ مکمل ہونے کے بعد حکومت کو ارسال کردی جائے گی۔

حادثے کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو نے ماڈل کالونی کی اسی گلی کا ایک بار پھر دورہ کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ اب وہاں کیا صورتحال ہے۔

گلی کے ایک رہائشی سید عبدالرافع کے گھر کے بالکل سامنے جہاز تباہ ہوا تھا اور ان کے گھر میں کام کرنے والی تین خواتین ملازم جہاز کے شعلوں سے بری طرح جل گئی تھیں۔

ان کے گھر کو حادثے کے روز جلی ہوئی لاشیں رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ جہاں پر وہ اور ان کی اپنی فیملی 24 گھنٹوں سے زائد تک پھنسے رہے تھے۔

اس بار ہم نے جب رافع سے ملاقات کی تو انہوں نے ہمیں پچھلے بار کی طرح اپنے گھر کا دورہ کروایا۔ فرق انتہائی واضح تھا۔

اس مرتبہ ان کے گھر کی دیواریں کالی نہیں تھیں اور دروازے کھڑکیاں بھی ثابت تھے۔

رافع نے بتایا حادثے کے بعد آگ کی تپش سے گھر کے سامنے کی دیواروں کا سریہ پگھل گیا تھا، اس لیے انہوں نے سامنے کا حصہ منہدم کروا کر نئے سرے سے بنوایا ہے۔

’ایسا لگتا تھا کہ دیواریں کبھی بھی گر سکتی ہیں اس لیے ہمیں گھر میں کافی کام کروانا پڑا تاکہ ہم یہاں دوبارہ رہ سکیں۔‘

رافع نے پچھلے ایک سال میں پیش آنے والی تمام مشکلات کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا ’ہمارا گھر جب رہنے کے قابل نہیں تھا تو ہم کرائے کے مکان میں منتقل ہو گئے تھے۔

’پی آئی اے نے ہمیں صرف دو ماہ کے کرائے کے پیسے دیے، جو جلد ہی ختم ہو گئے تھے۔ پچھلے سال اگست میں ہم نے اپنی جیب سے گھر کی مرمت کروائی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ اس دوران کئی خرچوں کے باعث ان کے مالی حالات کافی خراب ہوگئے تھے۔

’ہماری گلی پوری طرح خراب ہو چکی تھی۔ مکان ٹوٹے ہوئے تھے۔ گلی میں گزرنے سے بھی ڈر محسوس ہوتا تھا کیوں کہ لگتا تھا کہ کہیں اوپر سے کوئی چیز سر پر نہ گر جائے۔‘

ہم نے جب رافع سے پوچھا کہ اب گھر کے اوپر سے جہاز گزرنے پر ان کی کیا کیفیت ہوتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’اب جب بھی میرے گھر کے اوپر سے جہاز گزرتا ہے تو میرے گھر کے بچے کہتے ہیں کہ اندر آجائیں نہیں تو جہاز گر جائے گا۔‘

رافع کے مطابق بچے ایک طرح سے یہ بات مذاق میں کہتے ہیں لیکن ان کے دلوں میں یہ خوف بیٹھ گیا ہے کہ کوئی جہاز پھر سے گر سکتا ہے۔

حادثے میں معجزانہ طور  پر بچ جانے والے دو افراد میں بینک آف پنجاب کے صدر ظفر مسعود اور کراچی کے رہائشی محمد زبیر شامل ہیں۔

ایک سال مکمل ہونے کے موقعے پر محمد زبیر نے بتایا کہ وہ حادثے کے بعد اب تک آٹھ سے نو مرتبہ جہاز کا سفر کرچکے ہیں لیکن انہوں نے پھر کبھی پی آئی اے میں سفر نہیں کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پی آئی اے سے ان کا بھروسہ پوری طرح اٹھ چکا ہے اور وہ اب دیگر نجی ایئر لائنز میں سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

’میری تمام چوٹیں مکمل طور پر ٹھیک ہو چکی ہیں البتہ جلنے کے نشان اب بھی باقی ہیں۔ میری والدہ کی دعاؤں نے مجھے بچایا اور ان ہی کی دعاؤں سے میں ٹھیک ہوا ہوں۔

’حادثے کے بعد میں نے تمام علاج اپنی جیب سے کروایا اور سارا خرچہ خود ہی برداشت کیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ انہیں علاج کے پیسے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن پھر کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ مگر ایک نجی ٹی وی چینل پر میرا انٹرویو نشر ہونے کے بعد میری معاونت کی گئی۔

ہم نے جب زبیر سے پوچھا کہ اب انہیں ہوائی جہاز میں سفر کرنے پر کیسا محسوس ہوتا ہے تو ان کا کہنا تھا ’میں نے جب حادثے کے بعد پہلی بار جہاز میں سفر کیا تو لینڈنگ کے وقت وہ سارا منظر میری نظروں کے سامنے آ گیا۔

’اب تک میں کئی بار سفر کرچکا ہوں لیکن جس وقت جہاز کی لینڈنگ ہوتی ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ تمام خیالات ذہن میں دوبارہ آجاتے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا