ماں کے بغیر ایک اور اتوار

اپنی والدہ کے پیچیدہ ماضی کو تلاش کرنے کے لیے ایک مصنف کے دردناک سفر کی رُوداد۔

مصنف نِک ڈیورڈین کی والدہ کا بچپن۔ تصویر:نِک ڈیورڈین

اپنی نئی شائع شدہ کتاب ’دا سمالیسٹ تِھنگز‘ میں مصنف نِک ڈیورڈین اپنی والدہ اور نانی کے درمیان مشکل اور غیرمعمولی تعلق کی کھوج کرتے ہیں۔ اس کتاب میں سے اقتباس نیچے پڑھیے۔

میں ہمیشہ ماوں کے عالمی دن کو اپنی والدہ کے ساتھ منانے کے لیے پرجوش ہوتا تھا۔ اگرچہ انہیں پھول پسند نہیں تھے اور مستقل ڈائیٹ پر قائم رہنے کی وجہ سے وہ چاکلیٹ بھی نہیں کھاتی تھیں، مگر وہ میرے ان خیرسگالی جذبات کو سراہنے سے بھی نہیں ہچکچاتی تھیں۔

میری ماں غیر معمولی طور پر ایک پیچیدہ خاتون تھیں اور ان کی وفات کے 20 سال بعد میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر اس پیچیدگی کی وجہ کیا تھی اور اپنی ماں یعنی میری نانی سے ان کا اتنا پُراسرار اور عجیب تعلق کیوں تھا۔

ان کی موت کے بعد آنے والے ہر ماوں کے عالمی دن کے موقع پر میں انہیں یاد کرتا ہوں اور ان کی کمی کو محسوس کرتا ہوں۔

کچھ سال قبل، ایک شب میں اپنے دوستوں کے ساتھ اویجا (Ouija) بورڈ (روحوں سے بات کرنے کے لیے استعمال ہونے والا بورڈ) کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ ہم سب نے شراب نوشی کی ہوئی تھی۔ نشے میں ہونے کی وجہ سے ہم بورڈ کے قریب بیٹھ گئے۔ ہم نے غور کیا تو بورڈ پر موجود حروف تہجی گڈمڈ ہونا شروع ہو گئے ایسے کہ اس پر ہمیں کوئی پیغام دیا جا رہا ہو۔

ایسا لگ رہا تھا کہ ہم نے اپنے گزر جانے والے پیاروں سے باتیں کر رہے ہوں جیسا کہ ٹیلی فون پر کیا جاتا ہے۔

اور دوسری جانب سے بھی ہمارے ساتھ بات چیت کرنے میں اتنی ہی دلچسپی ظاہر ہورہی تھی۔

میرے ایک دوست نے اپنی فوت شدہ چچی کے ساتھ بات کی، دوسرے نے اپنے مرے ہوئے دادا کے ساتھ، اور ان کا ردعمل شاندارتھا۔ وہ افسردہ باتیں کر رہے تھے اور کبھی دلچسپ، یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے ساتھ مزاحیہ باتیں بھی کیں۔

ہم میں سے کسی کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے، لیکن یہ عجیب تھا۔ کچھ دیرکے بعد میری باری تھی۔ میں نے اپنی آنجہانی والدہ کو بلایا اوروہ پہنچ بھی گئیں۔

میں نے پوچھا کہ ایسا کچھ ہے جو وہ مجھے بتانا چاہتی ہوں، جواب آیا ’نہیں۔‘

وہ مرنے کے بعد بھی اپنے رازوں سے پردہ نہیں اٹھانا چاہتی تھیں۔

اس رات کے بعد میں نے اپنی والدہ کی اٹلی میں مقیم واحد دوست لوریٹا جو سے ملنے کا فیصلہ کیا۔

میلان میں واقع چھوٹے سے فلیٹ میں ہونے والی ملاقات میں لوریٹا نے مجھے بتایا کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران میری نانی اپنے آبائی وطن یوگوسلاویا سے اپنے روسی بوائے فرینڈ کے ہمراہ اٹلی پہنچیں۔ ان کے کم از کم ایک سال سے تعلقات تھے اور وہ خوش بھی تھے جب تک کہ وہ یہ نہ جان پائے کہ وہ حاملہ تھیں۔

ایک سخت گیر کیتھولک معاشرے میں رہتے ہوئے ان کا شادی کرنا ضروری تھا لیکن ان کے روسی محبوب کو شادی میں دلچسپی نہیں تھی، لہذا وہ اس رشتے کا ناگوار اختتام کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے چلا گیا اور اسے پھر کبھی نہیں دیکھا۔

میری والدہ کی پیدائش کے بعد بطور اکیلی ماں، میری نانی نے ایک کانوینٹ میں پناہ حاصل کی۔ کچھ عرصہ بعد ایک اطالوی شخص نے میری نانی سے شادی کرلی لیکن ان کے خاندان کو میری والدہ، جو اُس وقت ایک چھوٹی سی بچی تھیں، قبول نہیں تھی۔

لوریٹا نے مجھے بتایا کہ میری نانی نے میری والدہ، جو اس وقت صرف پانج برس کی تھی، کو کانوینٹ کے حوالے کرکے اپنا گھر بسا لیا۔

میں نے لوریٹا سے پوچھا کہ وہ وہاں کتنا عرصہ رہیں، لیکن وہ نہیں جانتی تھیں، انہوں نے کہا کہ ’شاید کئی سال۔‘

’تمہاری ماں نے اسے کبھی نہیں بھلایا اور کبھی بھی تمہاری نانی کو معاف نہیں کیا۔‘

میرے سوتیلے نانا نے میری ماں کو برسوں بعد اپنے گھر کی چھت تلے آنے کی اجازت دی۔ لیکن لوریٹا نے وضاحت کی’وہ اس گھر میں کبھی خوش نہیں رہی۔‘

میری والدہ اور لوریٹا سکول میں دوست بن گئیں، 1963 میں وہ دونوں لندن چلی گئیں، جہاں وہ بچوں کی آیا اور پھرسیکریٹری کے طور پر کام کرنے لگیں۔

میں نے لوریٹا سے پوچھا کہ میری ماں کے لیے زندگی کس طرح تھی، کیا اپنے والدین کی بدسلوکی کے بعد انہوں نے آزادی کا مزہ چکھا؟ کیا وہ زندگی سے لطف اندوز ہوئیں؟

لوریٹا نے کہا: ’میں نہیں جانتی، تمہاری ماں ہمیشہ اتنی ہی سنجیدہ تھیں۔ وہ غم کی عکاس تھیں، میں کہوں گی وہ ہمیشہ کامل بننے کی کوشش کر رہی تھیں، اور کبھی بھی کچھ غلطی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ اور مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایک آسان انسان تھیں۔ ہم اطالوی لڑکیوں کا ایک گروہ تھا لیکن وہ سب سے بدظن رہتی تھیں، صرف میں ہی تھی جو واقعی میں اس کے ساتھ گھل مل سکتی تھی۔‘

میں یہ سن کر غمگین ہو گیا، میں نے محسوس کیا کہ وہ ہمیشہ اپنے کندھوں پرغیرضروری بوجھ اُٹھائے پھرتی تھیں۔

1968 میں لوریٹا واپس اٹلی لوٹ گئیں اور میری والدہ نے یارک شائر سے تعلق رکھنے والے شخص یعنی میرے والد سے شادی کر لی۔

میری پیدائش کے بعد، ہم جنوبی لندن میں ایک ٹاور بلاک میں منتقل ہوگئے تھے۔ میرے والد اب سفر کی صنعت میں کام کر رہے تھے اور اکثر گھر سے باہر رہنے لگے اور یہی بات میرے والدین کی طلاق کی وجہ بنی۔

علیحدگی کے بعد نانی نے میری والدہ کو واپس میلان بلانے کی کوشش کی لیکن وہ اس کے لیے راضی نہ ہوئیں اور میری پروریش میں جُت گئیں۔ اس دوران وہ یوگا کرتیں اور مکمل سبزی خور بن گئیں۔

1999 کے ابتدا میں ان کو لبلبہ کا کینسر لاحق ہو گیا۔ تشخیص کے بعد ڈاکٹروں نے ان کو چھ ماہ کی مہلت دی۔وہ 11 ماہ تک زندہ رہیں۔

یہ عرصہ ان کی زندگی کا اذیت ناک دور تھا، مسلسل درد اور لاچارگی ان کی زندگی کا حصہ بن گئی۔

وہ محسوس کرتی تھیں کہ وہ زندگی میں ناکام ثابت ہوئی تھیں اور یہ اس کی آخری سزا تھی۔ وہ اسے اپنی تقدیر یا کَرما سمجھنے لگی تھیں۔

ان کی بیماری کے دوران، میری نانی نے کبھی پلٹ کر ان کی خیریت معلوم نہیں کی، وہ اب تک ایک وفادار بیوی کا کردار نِبھا رہی تھیں۔

لوریٹا کے مسلسل اصرار کے بعد نانی میری علیل والدہ کو دیکھنے لندن آ ہی گئیں مگر وہ ان سے ملنا نہیں چاہتی تھیں۔

میں نے دونوں کو ہسپتال کے کمرے میں اکیلا چھوڑ دیا تاکہ وہ آپس میں بات کر سکیں  لیکن میری والدہ اب بات نہیں کرنا چاہتی تھیں۔

لوریٹا نے مجھے ابھی بتایا کہ ان دونو ں میں تلخ کلامی ہوئی،’ تمہاری نانی پوری رات روتی رہیں، لیکن دونوں نے مجھے نہیں بتایا کہ ان کی لڑائی کس بارے میں تھی۔‘

ایسا لگتا ہے کہ کچھ زخم کبھی مندمل نہیں ہوتے، وہ ہمیشہ رِستے ہی رہتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ اس بات کا اندازہ لگایا کہ میری والدہ کے دل میں نانی کے لیے نفرت موجود تھی لیکن انہوں نے اس بارے میں کبھی کسی کو کچھ نہیں بتایا۔

نانی کی 81 ویں سالگرہ کے موقع پر میری والدہ کا انتقال ہو گیا۔ وہ ان کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے بھی نہ آئیں۔

میں اس کے بعد نانی کی ہر سالگرہ پر انہیں فون کرتا رہا۔ وہ مجھے میری ماں کے نام سے پکارتی تھیں اور رونے لگ جاتی تھیں ، شاید میری ماں کے لیے ممتا ظاہر کرنے کا ان کا یہ واحد طریقہ تھا۔  

نِک ڈیورڈن کی کتاب ’دی سمالیسٹ تِھنگ‘ سے ماخوذ

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین