امریکہ پاک افغان سرحد پر فوجی اڈا بنا رہا ہے: رپورٹس

افغان میڈیا پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ امریکہ ضلع کرم میں فوجی اڈا بنا رہا ہے اور مقامی لوگوں کے مطابق یہاں روزانہ آٹھ سے 10 فوجی ہیلی کاپٹر آتے ہیں۔ تاہم مقامی صحافی ان خبروں کو مسترد کرتے ہیں۔

افغانستان میں ایک امریکی فوجی اڈا (اے ایف پی فائل)

افغان میڈیا میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ امریکہ پاکستان کے قبائلی ضلع کرم میں پاکستان افغان سرحد کے قریب شلوزان اور ترمینگل کے علاقے میں فوجی اڈا بنا رہا ہے۔

 افغانستان کی ’پژواک‘ نیوز ایجنسی اور ’کابل نیوز‘ نے اپنی رپورٹس میں کہا کہ امریکہ نے پاڑہ چنار میں فوجی اڈا بنانا شروع کر دیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ روزانہ آٹھ سے 10 فوجی ہیلی کاپٹر شلوزان کے علاقے میں آتے ہیں اور یہ کہ شلوزان اور ترمینگل میں چیک پوسٹیں بن رہی ہیں جب کہ مقامی افراد کو وہاں جانے کی اجازت نہیں۔

 افغان میڈیا کا یہ دعویٰ ایک ایسے وقت میں سامنا آیا ہے جب دو ہفتے قبل پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد پاکستان امریکہ کو فوجی اڈے دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ 

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان امن عمل کے لیے ’ہمارا کردار ایک سہولت کار کا ہو گا۔‘

امریکی فوج اڈے کے حوالے سے جب پاڑہ چنار کے مقامی صحافیوں سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے افغان میڈیا کی رپورٹس کی تردید کر دی۔

پاڑہ چنار کے مقامی صحافی ابرار قاضی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شلوزان اور ترمینگل میں امریکی بیس بنانے کا دعویٰ غلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان سرحد ہونے کی وجہ سے ان علاقوں میں فوجی ہیلی کاپٹروں کی آمد و رفت معمول کا حصہ ہے۔

پاڑہ چنار میں ’ایکسپریس نیوز‘ کے صحافی مہدی حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے پاکستان افغان سرحدی علاقے شلوزان میں کسی قسم کی امریکی یا پاکستانی فوجیوں کی سرگرمی نہیں دیکھی۔

انہوں نے افغان میڈیا کے اس دعوے کے حوالے سے، کہ شلوزان اور ترمینگل میں مقامی افراد کو جانے کی اجازت نہیں، بات کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ علاقوں میں مقامی باشندوں کو جانے کی مکمل اجازت ہے۔ 

انہوں نے مذکورہ علاقوں میں فوجی ہیلی کاپٹروں کی آمد و رفت کی بھی تردید کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغان امور کے ماہر سینیئر صحافی طاہر خان نے بتایا کہ کرم میں امریکی اڈے کے حوالے سے خبر بے بنیاد ہے کیونکہ اس خبر میں کسی قسم کا ثبوت نہیں دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا: ’پاکستان کا اب یہ اصولی فیصلہ ہے کہ وہ کسی اور کی جنگ میں حصہ نہیں لے گا جب کہ پاکستان میں اب پارلیمنٹ ہے لہٰذا کوئی بھی اب خود سے فیصلہ سازی نہیں کرسکتا۔‘

طاہر خان نے مزید کہا کہ امریکہ کو پاکستان میں بیس بنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ امریکہ افغانستان میں نکل رہا ہے اور طالبان نے افغان سرزمین کو امریکہ کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت دی ہے۔

واضح رہے کہ امریکہ افغانستان کے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ فوجی اڈے حاصل کرنے کے لیے بات چیت کر رہا ہے۔ 

امریکی فوج کے سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کیتھ ایف میکنزی نے اپریل میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ امریکہ کے فی الوقت افغانستان کے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ فوجی اڈوں کے بارے میں کوئی معاہدہ نہیں لیکن وہ پرامید ہیں کہ امریکی فوج کے انخلا سے قبل ایسے معاہدے ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی اور شاہ محمود قریشی پہلے ہی افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد امریکہ کو فوجی اڈے نہ دینے کا اعلان کر چکے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان