ایک اعلیٰ امریکی جنرل نے بدھ کو کہا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان کے مستقبل کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ہے تاہم انہوں نے طالبان کو حکومت کے خاتمے کے ’بدترین‘ نتائج سے خبردار کیا ہے۔
جوائنٹ چیفس کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے افغانستان کے مستقبل کے بارے میں پوچھے جانے پر سیڈونا فورم کو بتایا کہ مشکل صورت حال ہے جس میں ان کے پاس اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پینٹاگون دو ہفتے قبل صدر جو بائیڈن کی جانب سے اعلان کردہ فیصلے کے تحت ستمبر تک اپنی آخری 2500 سے زائد افواج واپس بلا لے گا تاکہ وہاں دو دہائیوں سے جاری امریکی فوج کی موجودگی کو ختم کیا جا سکے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جنرل ملی نے کہا کہ انخلا کے بعد جو کچھ ہوتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس کے نتائج کی ایک حد ہے، جن میں سے کچھ کافی خراب ہیں اور کچھ بالکل خراب نہیں ہیں۔
’بدترین صورت حال کے تجزیے پر، آپ کے پاس حکومت کا ممکنہ گرنا ہے، فوج کا ممکنہ خاتمہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے پاس خانہ جنگی ہے اور اس کے ساتھ ہونے والی تمام انسانی تباہی ہے۔ اس میں 11 ستمبر کے حملوں کے پیچھے جہادی گروپ القاعدہ کی بحالی بھی شامل ہو سکتی ہے جو 2001 میں امریکہ کی قیادت میں ملک پر اصل حملے کا نشانہ تھا۔
ملی نے کہا کہ دوسری طرف آپ کے پاس ایک فوج ہے جو ساڑھے تین لاکھ فوج اور پولیس فورسز اور افغان سکیورٹی فورسز ہے۔ آج آپ کی حکومت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کافی عرصے سے طالبان کے خلاف بغاوت کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ چنانچہ یہ کوئی پیشگی نتیجہ نہیں ہے کہ کابل کا خودبخود زوال ہوگا۔
ملی نے کہا کہ اس کا بہترین نتیجہ کابل حکومت اور طالبان باغیوں کے درمیان مذاکراتی معاہدہ ہوگا لیکن انہوں نے یہ اندازہ لگانے سے انکار کر دیا کہ امریکی فوجیوں کے جانے کے بعد ملک کون سے ممکنہ راستے اختیار کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد بھی اگر القاعدہ اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے تو وہ القاعدہ کی نگرانی اور اس کا تعاقب کر سکیں گے۔ ’ہمارے پاس بہت سی صلاحیتیں ہیں...تاکہ ہمارے ملک کے دشمنوں کا سراغ لگایا جا سکے اور پھر انہیں نشانہ بنایا جا سکے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملی نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان واحد جگہ نہیں ہیں جہاں دہشت گردی کے یہ خطرات موجود ہیں۔ ’ہم نگرانی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اگر ضرورت پڑتی ہے تو ہم کارروائی کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔‘
ٹرائکا اجلاس بلانے کا فیصلہ
افغانستان کے لیے روس کے خصوصی ایلچی ضمیر کابلوف نے بدھ کو میڈیا کو بتایا ہے کہ امریکہ، روس، چین اور پاکستان کے نمائندے 30 اپریل جمعے کو بین الافغان مذاکرات کی موجودہ صورت حال کے حل پر تبادلہ خیال کریں گے۔
تاس نیوز ایجنسی کے مطابق ضمیر کابلوف نے تصدیق کی کہ ’ایکسٹینڈڈ ٹرائکا‘ اجلاس 30 اپریل کو دوحہ میں ہوگا جس میں روس، امریکہ، پاکستان اور چین کے نمائندے شرکت کریں گے۔
ضمیر کابلوف نے کہا کہ ’ہم انٹرا افغان مذاکرات میں موجودہ صورت حال کے حل پر تبادلہ خیال کریں گے۔ ہم کوشش کریں گے کہ مشترکہ طور پر بات چیت کو آگے بڑھانے کے لیے ایک پوزیشن اختیار کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’وقت بتائے گا کہ اس کا نتیجہ کیسا نکلتا ہے۔‘
اس سے قبل 18 مارچ کو ماسکو میں اجلاس ہوا تھا جس میں چین، امریکہ، پاکستان اور روس کے علاؤہ افغان حکومت اور طالبان نے بھی شرکت کی تھی۔
افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق جمعرات کو ٹرائکا اجلاس میں شرکت کے لیے دوحہ جائیں گے۔
افغان امور پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی طاہر خان کے مطابق پاکستانی حکام کا ایک وفد طالبان رہنماؤں سے ملاقات کے لیے بدھ کو قطر پہنچ گیا ہے جب کہ دوسرا وفد افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق کی سربراہی میں جمعرات کو دوحہ روانہ ہوگا۔
طاہر خان نے مزید کہ کہا محمد صادق دوحہ میں افغان حکومت کے وفد سے بھی ملاقات کریں گے۔
ذرائع کے مطابق ٹرائکا اجلاس میں طالبان سے مشترکہ طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا جائے گا ۔
ادھر افغان گروپوں سے براہ راست مذاکرات کے خواہاں طالبان نے متعدد افغان سیاسی رہنماؤں کو خطوط ارسال کیے ہیں۔ قومی مفاہمت کی اعلی کونسل کے سربراہ، عبد اللہ عبد اللہ کے دفتر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسے طالبان کی طرف سے ایک خط موصول ہوا ہے، جس میں طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کا مطالبہ کیا گیا ہے تاہم عبداللہ کے دفتر نے کہا ہے کہ اس خط کا مقصد ملک میں اختلاف پیدا کرنا ہے۔
دوسری جانب افغان میڈیا نے خبر دی ہے کہ طالبان کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری ہوا ہے جس میں طالبان نے اپنے جنگجووں کو یکم مئی کے بعد بیرونی افواج پر حملے کرنا کا حکم دیا ہے۔
اس حوالے سے قطر میں طالبان کے اعلی حکام سے پوچھا گیا تو انہوں نے کسی ایسے اعلامیہ کی تردید کی ہے۔