وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان کے خفیہ ادارے انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) پر تنقید مغربی میڈیا کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے اور لوگ امیگریشن کے لیے بھی ایسا کرتے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے پروگرام ’ہارڈ ٹاک‘ میں گفتگو کے دوران اس وقت کیا، جب پروگرام کے میزبان نے ان سے پاکستان میں آزادی صحافت اور حال ہی میں صحافی اسد طور پر ہونے والے حملے کے حوالے سے سوال کیا۔
واضح رہے کہ صحافی اور وی لاگر اسد علی طور کو رواں ہفتے منگل کی رات اسلام آباد میں واقع ان کی رہائش گاہ پر نامعلوم افراد نے حملہ کرکے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے کے خلاف جمعے کو ملک بھر میں صحافیوں کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا، جس میں اسد علی طور سمیت صحافیوں پر حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔
پی ٹی آئی حکومت کی صحافیوں اور آزادی اظہار کی حفاظت میں ناکامی کے حوالے سے سوال پر فواد چوہدری نے کہا: ’میں اس بیان سے اختلاف کروں گا۔ یہ پاکستان کے آئین کا حصہ ہے۔ پاکستان میں آزاد ترین صحافت ہے۔ 43 بین الاقوامی ٹی وی چینلز، 112 ٹی وی چینلز، 258 ایف ایم چینلز اور ایک ہزار 569 اخبارات خود آپ کے بیان کی نفی کرتے ہیں۔‘
اسد علی طور پر حملے کے حوالے سے سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا: ’جی ہم نے سی سی فوٹیج لے لی ہیں، پولیس وہاں تحقیق کر رہی ہے، نوٹس لیا جا چکا ہے۔ آئی ایس آئی پر تنقید مغربی میڈیا کے لیے اب فیشن بن چکی ہے اور لوگ امیگریشن کے لیے بھی ایسا کرتے ہیں۔‘
میزبان کی جانب سے اس سوال پر کہ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق عمران خان جب سے برسراقتدار آئے ہیں صحافیوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس میں سکیورٹی اداروں کا نام بھی آتا ہے؟ وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا: ’جب آپ کسی پاکستانی ایجنسی کے ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہیں تو اس کا ثبوت بھی ہونا چاہیے، تحقیقات میں ایسا کچھ نہیں سمجھ آیا، آپ کس بنیاد پر ریاست اور اداروں کے ملوث ہونے کا الزام لگا رہے ہیں؟‘
صحافیوں، سیاست دانوں اور ہیومن رائٹ ایکٹوسٹس کے لاپتہ ہونے کے کیسز اور اس میں ایجنسیوں کے نام آنے کے حوالے سے سوال پر فواد چوہدری نے کہا: ’پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کو انسانی حقوق کا مکمل احترام ہے۔ وہ انتہائی سویلائزڈ اور ذمہ دار ادارے ہیں۔‘
اس سوال پر کہ صحافیوں پر حملوں اور سینسر شپ کی موجودگی میں بحیثیت وزیر اطلاعات کیا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ کے پاس کوئی طاقت نہیں اور طاقت کا منبع کہیں اور ہے؟ فواد چوہدری نے کہا: ’میں ایک ایسے ملک کا وزیر اطلاعات ہوں جو دنیا کی سات ایٹمی طاقتوں میں سے ایک ہے، جو دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، کوئی مجھے کم تر سمجھنے کی جرات نہیں کر سکتا، میرے پاس پورا اختیار ہے یہ فیصلہ کرنے کا کہ پاکستان میں کیا ہونا ہے اور کب ہونا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں نئے قوانین کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں کو توہین مذہب، نفرت انگیز، دہشت گردی یا قومی سلامتی کے خلاف مواد کی اشاعت پر لاکھوں ڈالر جرمانے کا سامنا ہوگا۔ کیا یہ سب ریاست کو شدید طاقتور بنانے کی کوشش اور آن لائن سنسر نہیں؟ اس سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات نے کہا: ’نفرت انگیز تقاریر کی دنیا بھر میں کہیں بھی اجازت نہیں ہے۔ باقی چیزوں کا جہاں تک تعلق ہے، قانون مکمل دیکھ بھال کے بعد بنایا گیا ہے۔ سوشل میڈیا رولز ابھی بھی زیر بحث ہیں۔ ہمیں تمام ٹیکنالوجی کمپنیوں کا احساس ہے، دنیا کی ترقی میں ان کے حصے کا مجھے احترام ہے۔ سینسر شپ یا ایسا کوئی بھی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم ان تمام کمپنیوں کو خوش آمدید کہیں گے۔‘
پروگرام کے دوران وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے اس سوال پر کہ سٹیبلشمنٹ سے جیسا کہا جاتا ہے، وہ خوشی خوشی ویسا کر لیتے ہیں، یہ تاثر کس حد تک ٹھیک ہے؟ فواد چوہدری نے کہا: ’شاید یہ بھارت سے متاثر کسی تھنک ٹینک کا کہنا ہو۔ عمران خان مکمل خود مختار ہیں، وہ منتخب وزیراعظم ہیں، کابینہ ہر فیصلے میں شامل ہوتی ہے۔ ہاں، سو کالڈ اسٹیبلشمنٹ جو آپ بار بار کہہ رہے ہیں، ان سے ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں، لیکن فیصلے وزیر اعظم اور کابینہ ہی کرتے ہیں۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان کا گروتھ ریٹ کم ترین ہے اور غربت بہت اونچی شرح پر ہے، کیا یہ وزیراعظم کی ناکامی ہے؟ وزیر اطلاعات نے کہا: ’اس وقت پاکستان کا گروتھ ریٹ 3.9 فیصد ہے، جو دنیا میں کرونا کے باوجود سب سے زیادہ ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’لوگ اب بھی وزیر اعظم کے ساتھ ہیں۔ اگلی بار بھی ووٹ انہیں ملیں گے۔‘
پاکستان میں کرونا ویکسینیشن مہم کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات نے کہا کہ ’اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے مطابق پاکستان نے کرونا کا قابل تقلید مقابلہ کیا، پاکستان نے دنیا کے بہت ملکوں سے بہتر انتظامات کیے، جہاں تک ویکسین کی بات ہے اب تک ہم 5.5 ملین لوگوں کو ویکسین لگا چکے ہیں۔‘