الیکٹرک گاڑیاں: ٹیکس اور قیمتیں کم کر کے استعمال بڑھانے کی تیاری

پارلیمانی سیکرٹری برائے تجارت عالیہ حمزہ کے مطابق اس پالیسی میں گاڑیوں پر عائد اضافی ڈیوٹی اور ٹیکسز کو کم کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔

حکومت کا دعوی ہے کہ سال 2022 میں گاڑیوں کی قیمتیں حیران کن حد تک کم کرنے کی پالیسی تیار کرلی گئی ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کیے جانے کے حوالے سے متعلقہ اداروں نے عملی اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ جس کا مقصد ماحولیاتی آلودگی کو کم رکھنے کے ساتھ گاڑیوں کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے پر قابو پانا بتایا جا رہا ہے۔

محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب کے ڈائریکٹررانا قمر الحسن نے انڈپینڈنٹ اردوسے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومتی پالیسی ہے کہ ملک میں پیٹرول کی بجائے گاڑیوں میں بجلی کے استعمال کو بڑھایا جائے تاکہ ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ مہنگے داموں پیٹرول کی درآمد میں کمی کی جائے۔‘

قمر الحسن کے مطابق پنجاب میں الیکٹرک گاڑیوں کے ایکسائز ٹیکسوں میں کمی کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم 16سے دو ہزار سی سی تک کی گاڑیوں کے ٹیکسوں میں بھی کمی کر کے اسلام آباد کی سطح پر لانے کی تجاویز بھی حکومت کو دی گئی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومتی ہدایات پرمحکمہ ایکسائز نے الیکٹرک گاڑیوں کے ہارس پاور کے لحاظ سے لاگو رجسٹریشن فیس میں 50 فیصد جبکہ ٹوکن ٹیکس میں 75 فیصد تک کمی کا فیصلہ کیاہے۔ جس سے گاڑیوں کی قیمتوں پر بھی اثر پڑے گا اور استعمال میں اضافہ ہوگا۔ 

مثال کے طور پر پہلے گاڑی کی کل قیمت کا ایک سے دو فیصد ایکسائز ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جو اب اعشاریہ پانچ اور ایک رہ جائے گا اس سے بیس لاکھ کی گاڑی پر لاگو 20 ہزار رجسٹریشن فیس دس ہزار رہ جائے گی۔ جبکہ ٹوکن فیس اگر چار ہزار ہے تو وہ کمی سےایک ہزار تک وصول کی جائے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اب تک لاہور میں 53 الیکٹرک گاڑیاں جبکہ اڑھائی سو سے زیادہ الیکٹرک موٹر سائیکل رجسٹرڈ ہو چکے میں مزید درخواستیں بھی موصول ہورہی ہیں جس سے اندازہ ہوتاہے کہ الیکٹرک گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘

پارلیمانی سیکرٹری برائے تجارت عالیہ حمزہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال میں اضافے کے لیے اقدامات ترجیحی بنیادوں پر کر رہی ہے۔

حکومت نے پہلے سے موجود آٹو ڈویلپمنٹ پالیسی کو تبدیل کر کے آٹو موٹیوانڈسٹری ڈویلپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ پلاننگ کی ہے جس کے تحت پہلی بار آٹو سپیئر پارٹس کی مقامی سطح پر تیاری کو فروغ دیا جا رہا ہے اور آٹو انڈسٹری میں جدت لائی جارہی ہے۔‘

ان کے مطابق حکومت نے ایک ارب ڈالر کی آٹو انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ نئے پلانٹس اور یونٹ لگ رہے ہیں سات نئے مینوفیکچررز کے کام شروع کرنے سے مارکیٹ میں مقابلہ کی فضا پیدا ہوئی ہے جس سے گاڑیوں کے معیار اور ورائٹی میں اضافہ ہوا ہے اور اس سے قیمتوں میں کمی بھی ہوگی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی مقامی پیداوار بڑھا کر جلد ہی ان کی برآمدات شروع کی جائیں گی۔ نئی پالیسی کا مقصد سستی، معیاری اور محفوظ گاڑی شہریوں کو فراہم کرنا ہے۔‘

عالیہ حمزہ کے مطابق اس پالیسی میں گاڑیوں پر عائد اضافی ڈیوٹی اور ٹیکسز کو کم کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے جس سے قیمتوں میں مذید کمی آئے گی اور انڈسٹری کو وسعت ملے گی۔ آئندہ بجٹ میں آٹھ سو سی سی سی تک امپورٹڈ گاڑیوں پر امپورٹ اور کسٹم ڈیوٹی کم کرنے کی تجویز ہے۔ یہ تجویز مںظور ہونے سےامپورٹ اور کسٹم ڈیوٹی سات فیصد تک کم ہوگی جس سے امپورٹڈ گاڑیوں کی قیمت تین سے چار لاکھ روپے تک کم ہو جائے گی۔

نئی پالیسی کے مارکیٹ پر کیا اثرات ہونگے؟

لاہور میں آٹو شوروم کے مالک چودھری حسن علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت کی پالیسیاں خوش آئند ہیں۔ پیٹرول کا خرچہ بچانے کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کی مانگ میں اضافہ تو ہوا ہے لیکن ابھی مکمل سپیئر پارٹس اور الیکٹرک سٹیشن نہ ہونے پر خریدار ہچکچا رہے ہیں اسی طرح نئی کمپنیوں کی گاڑیوں کی خریدوفروخت بھی بڑھ رہی ہے۔ لیکن حکومت نے جو قیمتیں کم کرنے اور ٹیکس چھوٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے وہ ابھی تک بیانات کی حد تک ہے مارکیٹ میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ قیمتوں میں ڈیمانڈ کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔‘

ان کے مطابق حکومت کو چاہیے کہ پالیسی پر عمل درآمد کرائے تاکہ ثمرات نیچے تک پہنچیں ابھی تک صرف کمپنیوں کو ہی فائدہ پہنچ رہا ہے۔ پاکستان میں مینو فیکچرنگ شروع ہونے کے باوجود ابھی تک دوسری کمپنیوں کے مقابلہ میں ان کے ریٹ کم نہیں ہوئے نہ ہی معیار ان سے بہتر ہوسکا ہے۔

پاکستان میں گاڑیوں کی خرید و فروخت کی ویب سائیٹ پاک وہیلز کے سربراہ سنیل سرفراز منج نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ نئی گاڑی خریدنے پر دو سال چلانے کے بعد بھی وہ اتنے میں ہی فروخت ہورہی ہے۔ ‘ 

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے پہلے کئی سال استعمال کےبعد بھی گاڑی کی قیمت کم ہوجاتی تھی اس کا مطلب ہے اب پہلے سے زیادہ تیزی اور زیادہ تناسب سے قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے یہاں تک کہ نئی گاڑی کی اصل قیمت کے ساتھ بروقت حصول پر اون منی بھی دینی پڑتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سنیل کے مطابق حکومتی پالیسیاں صرف کاغذی کارروائی ہیں اور عوام کو بہلانے کی کوشش ہیں جبکہ عملی طور پر مارکیٹ میں ان کے اثرات نہیں پہنچے۔ الیکٹرک گاڑی کی رجسٹریشن بھی کم نہیں ہوئی اور سات نئی کمپنیوں کی مقامی مینو فیکچرنگ شروع ہونے کے باوجود گاڑیاں سستی نہیں ہوئیں بلکہ آئے روز قیمت میں اضافہ ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’حیران کن طور پر ری سیل ویلیو نہ رکھنے والی کمپنیوں کی پرانی گاڑیاں بھی زیادہ قیمت نہیں توڑ رہیں مقابلہ کی فضا تو بن گئی لیکن اس کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچا نہ ہی گاڑیوں کا پہلے سے موجود کمپنیوں کی گاڑیوں کے مقابلہ میں معیار بہتر ہوسکا۔‘

ان کے مطابق وفاق صوبوں کو تو ٹیکس چھوٹ دینے کی ہدایت کرتا ہے لیکن اسلام آباد میں وہ ٹیکس رعایت نہیں دی جاتی۔

ہونا تو یہ چاہیے پہلے اسلام آباد میں گاڑیوں پر ٹیکس چھوٹ کا اطلاق کر کے مثال قائم کی جائے پھر صوبوں سے پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے تب ہی خریداروں کو کوئی فائدہ ہوگا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات