36 سال بعد ایک منفرد ملاقات

سکول کو بھی اس طرح کے سابق طلبہ کی مدد سے منفرد میل ملاپ کو فروغ دینا چاہیے اور اس کے تحفظ کے لیے مدد لینی چاہیے۔

1985 کی میٹرک کلاس (سیکشن اے) (تصویر: مصنف)

تکنیکی اور پیشہ ورانہ مہارتوں کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے وزیر اعلی سردار عبد الرشید خان کی حکومت نے پچاس کی دہائی کے اوائل میں پشاور میں ایک منفرد ہائی سکول کے قیام کے لیے ایک اہم پالیسی فیصلہ کیا جہاں طلبا کو ان کی باقاعدہ تعلیم کے ساتھ تین بنیادی تکنیکی مہارتیں فراہم کی جانی تھیں۔

اس طرح پشاور کی گلبہار کالونی کے مضافاتی علاقے میں گورنمنٹ ٹیکنیکل ہائی سکول قائم کیا گیا۔ قیام کے وقت یہ تعلیمی ادارہ پشاور کے نواح میں واقعے تھا۔ اس سکول کا افتتاح 15 نومبر 1954 کو اس وقت کے وزیر تعلیم میاں جعفر شاہ نے کیا۔

یہ ایک دلکش مخصوص سرخ اینٹوں کی عمارت تھی جس میں فٹ بال، کرکٹ اور ہاکی کے لیے مختص سرسبز وسیع میدانوں کے علاوہ بجلی، لکڑی، مشین اور دھاتی کام کے لیے چار بڑی بڑی متعلقہ آلات سے بھری ورکشاپس تھیں۔

سکول کے لان کو سیم و تھورسے پاک رکھنے کے لیے دائیں بائیں بڑی تعداد میں یوکلپٹس کے درخت بھی لگائے گئے تھے جبکہ محکمہ آبپاشی نے پانی کے لیے تین کنویں بھی نصب کیے تھے۔

ہزاروں نوجوانوں کی زندگیاں بدلنے والے اس تعلیمی ادارے نے وقت کی تغیرات برداشت کی ہیں اور اب کافی مقدوش حالت میں ہے۔ تاہم، اس سکول کے بارے میں آج کی یہ تحریر ایک انوکھے واقعہ سے متعلق ہے۔

1985 کی میٹرک کی کلاس (سیکشن اے) کے 21 طالب علم 36 سال کے طویل وقفے کے بعد پہلی مرتبہ بلمشافہ ملے۔ مزید برآں، چار ہم جماعت ویڈیو لنک کے ذریعے بیرون ملک سے بھی اس غیرمعمولی اجتماع میں شریک ہوئے۔

یہ واقعی ایک ایسی نعمت اور نادر موقع ہوتا ہے جب یہ پرانے دوست ایک دوسرے کے ساتھ بیک وقت پاگل، بیوقوف اور فلسفی بن سکتے ہیں۔ اس اجتماع میں صرف اساتذہ جناب عبد الودود (حیاتیات اور اردو) اور مولانا عبد الصبوح (اسلامیات) نے بھی بقلم خود شرکت کی۔

چاروں اطراف جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے۔ اتنے عرصے کے بعد ایک دوسرے کو دیکھنے سے کچھ پرانے دوست حقیقی معنوں میں جذبات سے مغلوب ہوگئے اور ان کے آنسو بھی بہہ نکلے۔ سب کی آنکھوں کے سامنے 36 سال پہلے والے ساتھیوں کی تصاویر گھوم گئیں۔

سن 1985 کے یہ بےفکر نوعمر نوجوان اب پختہ سرمئی بالوں والے بالغ مردوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ اتنے عرصے کے بعد مجموعی طور پر 36 کلاس فیلوز میں سے 30 کا پتہ لگانا اور وہ بھی چند ہفتوں کے قلیل عرصے میں جدید ٹیکنالوجی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ابتدا میں فیس بک نے دو کو قریب لایا اور پھر اس نے تعداد بڑھتی گئی جو بلاآخر 30 افراد پر مشتمل واٹس ایپ گروپ میں منتج ہوئی۔ اگرچہ سعید اور شیر فرزند مقامی سیاسی میدان میں کود چکے ہیں لیکن اسماعیل، اسلام الدین، ​​فضل معبود اور میں نے سرکاری ملازمت کا راستہ اختیار کیا۔ نواز اور اللہ بخش نے بینکر بننے کو ترجیح دی، منظور ایک سماجی کارکن بن گئے جبکہ مشتاق، جمیل، حیات، زین الابدین، ​انور، جاوید اور ضیا الدین نے اپنی قسمت کاروبار میں آزمانے کا فیصلہ کیا۔

یہ اس لحاظ سے ایک انوکھی کلاس تھی کہ اس میں طلبا کا ایک وسیع سپیکٹرم موجود تھا جس نے یا تو انٹرمیڈیٹ میں ہی اپنی تعلیم ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا یا انور احمد کی طرح بیرون ملک سے پی ایچ ڈی کرنے کا فیصلہ کیا۔

طویل وقفے کے بعد پہلی ملاقات کے لیے پرانے کلاس فیلوز نے اپنے اساتذہ کے لیے یادگار سوینیرز اور خصوصی یادداشتیں تیار کیں۔ اب اس سکول کا نام گورنمنٹ شہید احمد الٰہی ٹیکنیکل ہائر سیکنڈری سکول (آرمی پبلک سکول میں جان کھونے والے ایک طالب علم کے اعزاز میں) نام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔

سکول کے وسیع کمپاونڈ کا اب صرف 10 فیصد کھلا علاقے بچا ہے۔ ایک بات ضروری ہے کہ ایسے تاریخی بنیادی ڈھانچے کو برقرار رکھنے میں دلچسپی لینے کی فوری ضرورت ہے۔

سکول کے ایک حالیہ دورے نے یہ واضح کر دیا کہ اس کی اصل عمارت کو مبینہ طور پر جان بوجھ کر اگلے سال تک گرانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے تاکہ کسی نئی بدصورت عمارت کی راہ ہموار کی جاسکے۔

حکومت خیبر پختونخوا اور خصوصا اس کے محکمہ تعلیم کو اس تاریخی ادارے کو برقرار رکھنے اور اس کے تحفظ کے لیے بھرپور توجہ دینی ہوگی۔ دوسری جانب سکول کو بھی اس طرح کے سابق طلبہ کی مدد سے منفرد میل ملاپ کو فروغ دینا چاہیے اور اس کے تحفظ کے لیے مدد لینی چاہیے۔

روشن خیال معاشرے اسی طرح کام کرتے ہیں اور خوشحال حاصل کرتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس