کرونا وبا کے باعث اپنے شوہر سے بچھڑنے والی بیوی کی داستان

’مجھے وبا کی سنگینی کا اب بھی احساس ہے لیکن زندگی میرے لیے اہمیت کھو چکی۔ وہ جس کے ساتھ زندہ رہنے کی چاہ تھی وہ نہیں رہا۔‘

(اے ایف پی فائل فوٹو )

رابعہ عمائمہ احمد پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب کرونا (کورونا) کی وبا پاکستان میں پھیلنا شروع ہوئی تو انہوں نے تمام ایس او پیز پر عمل کیا اور بلاضرورت گھر سے نکلنا ترک کر دیا۔

ان کے شوہر میجر طاہر ودود دمے کے مریض تھے اگر انہیں کرونا ہو جاتا تو ان کے لیے نہایت خطرے کی بات ہوتی لہٰذا انہوں نے اپنے دفتر میں درخواست دے کر گھر سے کام شروع کر دیا۔

عمائمہ بتاتی ہیں کہ گھر سے کام کرنے کے لیے آفس والوں کو منانا ہی بہت مشکل تھا لیکن میں مستقل اپنے شوہر کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اگر میری وجہ سے انہیں کچھ ہو گیا تو اسے بھگتنا بہت مشکل ہو گا۔

عمائمہ بتاتی ہیں کہ ’کووڈ ہونے سے پہلے بھی ہم دو بار اسی طرح بیمار ہوئے، وہی علامات دونوں بارظاہر ہوئیں۔ دونوں بار ہم یہ سمجھے کہ ہمیں کرونا ہو گیا ہے لیکن ہمارے ٹیسٹ منفی آئے اور چند روز بعد ہم صحت یاب ہو گئے۔

’تیسری بار جب دوبارہ یہی علامات ظاہر ہوئیں اور ہم نے ٹیسٹ کروائے تو ہم دونوں میاں بیوی ہی کووڈ پازیٹو تھے۔ شروع میں علامات بہت معمولی تھیں، صرف ہلکا سا زکام تھا اور پہلے دن میرے شوہر کو 99 کے قریب بخار تھا۔

’ہم لوگ گھر پر ہی رہے، پانی کی مقدار بڑھا دی۔ آکسیجن سیچوریشن لیول بار بار چیک کرتے رہے تاکہ طبیعت بگڑنے کی صورت میں فوراً ہسپتال کا رخ کیا جا سکے۔

’ایک چیز جو واضح تھی وہ میری اور میرے شوہر کی علامات میں فرق تھا جس نے مجھے کافی حد تک پریشان کیا ہوا تھا۔ ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق ہم ادویات بھی لیتے رہے۔

’کرونا کے چوتھے روز میرے شوہر کا سیچوریشن لیول کم ہونا شروع ہوا جو اس صورت حال میں کسی بھی طور نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

’میرا آکسیجن لیول 96 سے 98 کے درمیان رہا جبکہ میرے شوہر کا سیچوریشن لیول ایک بار گرنا شروع ہوا تو واپس ٹھیک نہیں ہوا۔‘

عمائمہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر کی تمام رپورٹیں بہت حوصلہ افزا نہیں تھیں لیکن ٹھیک تھیں۔ وہ کھا پی رہے تھے اور بات چیت بھی کر رہے تھے۔

پھر انہیں پلازما کی ضرورت پڑ گئی اس سے پہلے تک وہ بہت بہتر تھے لیکن جب انہیں پلازما لگا تو ان کی صحت سنبھل نہیں سکی۔ ہوسکتا ہے ہر انسان میں اس کے اثرات مختلف ہوں لیکن ان کے شوہر اس کے بعد بہتر نہیں ہو سکے۔

’جب صورت حال ابتر ہوئی تو انہیں وینٹی لیٹر پر شفٹ کیا گیا جو نہایت ہی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ وینٹی لیٹر پر منتقل کرنے سے پہلے یہ آخری کوشش ہوتی ہے لیکن ان کی سانس ٹھیک نہیں ہو رہی تھی اور صورت حال بتدریج خراب ہو رہی تھی آخر کار انہیں وینٹی لیٹر پر شفٹ کرنا پڑا۔

’طاہر ودود جو زندگی سے بھرپور انسان تھے جن کی آنکھوں میں زندگی کی جھلک نظر آتی تھی جو جانوروں سے بے انتہا محبت کرتے تھے اور انسانوں سے بھی انتہائی شفقت سے پیش آتے تھے۔

’نڈر اور ہر چیز کا یہاں تک کہ کرونا کا مقابلہ بھی بہت بہادری سے کرتے رہے۔ وینٹی لیٹر پر صرف پانچ گھنٹے ہی نکال سکے اور خالق حقیقی سے جا ملے۔‘

عمائمہ جس وقت یہ سب بتا رہی تھیں وہ مسلسل زار و قطار رو رہی تھیں اور اب جب میں یہ سب لکھ رہی ہوں تو میں بھی زار و قطار رو رہی ہوں۔

عمائمہ ان کے آخری ایام یاد کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ ’سمیرا، وہ گھر جانا چاہتے تھے۔ وہ مجھے یہی کہتے رہے، ’مجھے گھر جانا ہے۔‘ لیکن ہم لوگ ہیں کہ ہم سے گھر پر بیٹھا ہی نہیں جا رہا۔‘

عمائمہ روتے روتے بتانے لگیں کہ ’میرے پاس ان کی آخری نشانی ان کا وائس نوٹ ہے جس میں انہوں نے کہا تھا ’عمائمہ آئی وانٹ اس‘ (I want us)، لیکن میرے ہاتھ میں کچھ نہ تھا۔‘

اپنی بے بسی کی داستان گوئی کرتے کرتے عمائمہ دوبارہ اس کرب سے گزر رہی تھیں جس سے دنیا میں کوئی انسان بھی گزرنا نہیں چاہتا اور مجھے مسلسل یہی تکلیف ہے کہ کاش میں ان سے یہ سب نہ پوچھتی، لیکن ہم صحافی ہیں، حقیقت اپنے پڑھنے والوں کے سامنے لانا اور انہیں باخبر رکھنا ہی ہمارا پیشہ اور ذمہ داری ہے۔

عمائمہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر کو میٹھا پسند تھا اور وہ گلاب جامن کی فرمائش کرتے رہے لیکن سٹیروئیڈز کی وجہ سے ان کی شوگر بڑھ گئی تھی اور وہ ان کی یہ خواہش بھی پوری نہیں کر پائیں۔

جو آخری سوال میں نے ان سے پوچھا وہ یہ تھا کہ ’آپ ان کے بعد اب کیا سوچتی ہیں اور وہ لوگ جو ابھی بھی اس وبا کو سیریس نہیں لے رہے انہیں کیا پیغام دینا چاہتی ہیں؟‘

عمائمہ نے کہا، ’میں اس بارے میں اب کیا بولوں، ڈیڑھ سال میں اس بارے میں بولتی رہی، لکھتی رہی، سمجھاتی رہی۔ وہ خود اتنی احتیاط کرتے رہے، اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے لوگوں کو آگاہ کرتے رہے۔

’مارکیٹ جاتے تو لوگوں سے کہتے ماسک پہنو اپنے لیے نہیں تو ہمارے جیسے بڑی عمر کے لوگوں کا خیال کرو لیکن نہیں۔‘

اب میرے پاس لوگوں کو کہنے کے لیے کچھ نہیں کیوں کہ نہ لوگ سننا چاہتے ہیں، نہ انہیں پروا ہے۔

عمائمہ نے ایک بار پھر دہرایا، ’میرے پاس کچھ نہیں انہیں کہنے کو۔ جنہوں نے بھارت کے حالات دیکھے جنہوں نے اٹلی کے حالات دیکھے اور یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں تو بھارت اور اٹلی جیسے حالات نہیں۔

’میں باہر جاتی ہوں تو دیکھتی ہوں لوگوں میں بے خوفی ہے۔ لوگ کہتے ہیں جو اللہ کی مرضی، اگر ایسا ہے تو ایسا ہی صحیح کسی دن آپ بھی میرے شوہر کی طرح اعداد و شمار کا حصہ ہو جائیں گے۔‘

جب آپ کسی سے محبت کرتے ہیں تو آپ کو ایک ہی خوف ہوتا ہے آپ اپنے پیاروں سے بچھڑ نہ جائیں۔ جب کووڈ آیا تو مجھے اس وبا کی سنگینی کا احساس تھا، ہم نے خود کو کورنٹین کیا ہوا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر کوئی چیز ختم ہو جاتی تو میں کہتی اس کی بجائے میں کچھ اور بنا لیتی ہوں تاکہ باہر نہ جانا پڑے۔ یہاں تک کہ گروسری بھی نہ خریدنی پڑے اور میرے شوہر کو کچھ نہ ہو، لیکن اب میرے اندر سے جیسے زندگی کی چاہ ختم ہو گئی ہے۔

ان کے بعد میں باہر نکلتی ہوں تو ماسک پہننا بھول جاتی ہوں۔ وہ احتیاط جو میری زندگی کا خاصہ بن گئی تھی میں چاہ کر بھی دوبارہ اس روٹین کو اپنا نہیں پا رہی۔

’اس کا مطلب یہ نہیں کہ وبا کی سنگینی کا اب مجھے احساس نہیں لیکن زندگی میرے لیے اہمیت کھو چکی ہے۔ وہ جس کے ساتھ زندہ رہنے کی چاہ تھی وہ نہیں رہا۔‘

عمائمہ یونہی کرونا وبا کا شکار ہونے والے اپنے شوہر کو یاد کرتی رہیں، روتی رہیں، ان کی باتیں کرتی رہیں اور میں سنتی رہی۔

احتیاط کرنی ہے، ویکسین لگوانی ہے خود کو اور اپنے پیاروں کو بچانا ہے یا نہیں، اب فیصلہ آپ کا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ