عمران خان کا بجٹ: عوام دوست یا دشمن؟

اگر وزیر اعظم عمران خان نے اپنے چوتھے بجٹ کو واقعی عوام دوست ثابت کرنا ہے تو مہنگائی پر نہ صرف کنٹرول کرنا ہو گا بلکہ اس کی شرح کو کم ترین بھی کرنا ہوگا۔

وزیر خزانہ شوکت ترین 11 جون، 2021 کو قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کر رہے ہیں جبکہ وزیر اعظم عمران خان بجٹ دستاویزات پڑھ رہے ہیں  (اے ایف پی)

چوکا تو ہو گیا کپتان کا، چار بجٹ اور چار وزیر، دو ہی سال تو رہ گئے ہیں حکومت کے۔ سب کو آزما کر دیکھ لیا تھا۔ پوسٹر بوائے اسد عمر سے لے کر شو بوائے حفیظ شیخ تک۔

شوکت ترین کو اپنی ساکھ کے ساتھ ساتھ حکومت کی ساکھ بھی بچانی ہے، سو ایسا ہی بجٹ متوقع کیا جا سکتا تھا جیسا آیا ہے، جس کے اندر محفوظ رہ کر کھیلتے ہوئے کسی بھی جارحانہ شاٹ سے گریز کرتے ہوئے، متناسب اور روایتی، فل الحال قابل قبول جس سے ڈنگ ٹپاؤ ٹائپ گزارہ چلایا جا سکے۔

اب حکومت کی مدت کے آخر میں کوئی انقلابی اقدامات کی روایتاً نہ توقع رکھی جاتی ہے نہ ایسے اقدامات کرنے کے لیے وقت حکومت کی دسترس میں ہوتا ہے۔

اقتدار کے اول اول تو نہ خان کو معیشت کی سمجھ آ رہی تھی نہ پاکستان کو خان کی اور اب جبکہ آن جاب ٹریننگ میں معاملات کھل کر واضح ہوئے ہیں تو وقت ہاتھ سے سرک چکا ہے۔

اسی لیے خان حکومت نے اپنے چوتھے بجٹ میں بڑے غیر معمولی اور انقلابی نوعیت کے اقدامات کرنے کی بجائے چھوٹے چھوٹے چند ایسے قدم اٹھائے ہیں جن سے بظاہر ریلیف کا تاثر مل سکے۔

اس بجٹ میں حکومت نے کوششں کی ہے کہ ہر طبقے کے لیے کچھ نہ کچھ  ایسا مہیا کر دیا جائے جس سے ریلیف اور عوام دوست بجٹ کا امیج بن سکے۔

مثلاً سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں اضافہ کر دیا گیا جو گذشتہ سال مفقود تھا۔ مڈل کلاس کے لیے چھوٹی گاڑیاں سستی کر دی گئیں لیکن بڑی گاڑیوں پر لوٹ مار کی کھلی چھوٹ برقرار ہے۔

اسی طرح سٹاک مارکیٹ کے لیے انسنٹوز مہیا کیے گئے ہیں، کسان کے لیے متعارف کروائے گئے اقدامات، صنعت کار اور سرمایہ دار کے لیے چھوٹ فراہم کی گئی ہے۔

بڑے تاجر کے لیے کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنے کی سکیم کو اور بہتر کیا گیا ہے مگر چھوٹے تاجر کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔

انٹرنیٹ کے استعمال پر ٹیکس نافذ کرنے سے لے کر فوری یوٹرن لینے تک کا تکلیف اور ریلیف کا سفر مگر تین منٹ سے زیادہ کی موبائل فون کال اور ایس ایم ایس پر ٹیکس کو برقرار رکھنے سے عوام دشمن اقدامات کا ہی تاثر ملتا ہے۔

ڈیجیٹل دور میں کسی بھی حکومت کی طرف سے ایسی تجاویز انتہائی احمقانہ اور ٹیکنالوجی کے فروغ کی مخالفت تصور کی جائیں گی۔

امید ہے کہ انٹرنیٹ کے استعمال پر اضافی ٹیکس فوراً واپس لیے جائیں گے اور جو فنانس بل حتمی طور پر منظور ہو گا اس میں یہ احمقانہ تجاویز شامل نہیں ہوں گی۔

مزدور کی کم از کم اجرت 20 ہزار روپے مقرر کرنا ایک اچھا بجٹ اقدام ہے اگرچہ پاکستان میں گذشتہ تین سالوں میں جس رفتار سے مہنگائی بڑھی ہے افراط زر کے تناسب سے 20 ہزار روپے اجرت میں ماہانہ گھر چلانا ناممکن ہے۔

دوسری طرف محض اجرت مقرر کر دینا ہی کافی نہیں کیونکہ پاکستان میں لیبر قوانین کی جس طرح دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اس صورتحال میں مزدور کو اجرت کی یقینی فراہمی حکومت کا ہی کام ہے۔

مگر دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ ہر حکومت بجٹ میں کاغذی دعوت تو خوب کرتی ہے مگر عملی طور پر انجام دینے میں بڑی حد تک ناکام رہتی ہے۔

چوتھے بجٹ میں نہ صرف عمران خان کی حکومتی شخصیت میں ٹھہراؤ آنے کا تاثر ابھرتا ہے بلکہ نئے اور چوتھے وزیر شوکت ترین کی سوچ اور ویژن بھی عیاں ہوتا ہے کہ وہ حکومتی مدت کے آخری دو سالوں میں ’گو سلو اینڈ سٹیڈی‘ کے قائل ہیں۔

اسد عمر، حفیظ شیخ اور حماد اظہر کے بجٹ میں عمران خان کی جذباتی، جارحانہ، جلد باز اور متحرک شخصیت کا تاثر ملتا تھا لیکن اب چوتھے بجٹ کی مدت تک پہنچتے پہنچتے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کو کچھ نہ کچھ حکومتی معاملات کی سمجھ آ گئی ہے کہ یہاں جارحیت، جوش و جذبہ اور جلد بازی نہیں بلکہ ٹھہراؤ اور حکمت عملی کا عمل دخل زیادہ ہے۔

ہر حکومت کی طرح اور ہر سال کی طرح جو سیاسی جماعت اقتدار میں ہوتی ہے وہ اپنے بجٹ کو عوام دوست ثابت کرنے جبکہ مخالف سیاسی جماعتیں اسے عوام دشمن قائل کرنے میں توانائیاں صرف کرتی رہتی ہیں۔

فی الحال تمام تر اندرونی اور بیرونی رکاوٹوں، دشواریوں اور اختلافات کے برعکس وزیراعظم عمران خان نے اپنا چوتھا بجٹ اسمبلی میں پیش کر دیا ہے اور اب ظاہر ہے فنانس بل کے پاس ہو جانے میں بھی کوئی بہت بڑی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔

ماسوائے اجلاسوں میں اور پارلیمان سے باہر اپوزیشن کے شور شرابے اور ہنگامہ آرائی کے، مگر وزیراعظم کا اصل امتحان تو بجٹ پیش کرنے کے بعد شروع ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اور یہ امتحان وہی ہے جو حکومت کو گذشتہ تین سالوں سے درپیش ہے اور تاحال اس میں مکمل ناکامی کا سامنا ہے یعنیٰ گورننس اور مہنگائی کی صورتحال۔

بجت کی کامیابی اور ناکامی کا بڑا دارومدار اسی پر ہے کہ عمران خان حکومت کس قدر جلد مہنگائی پر قابو پا سکتی ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ ایک لمحے کو اگر حکومتی دعوؤں کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ ملک کی معاشی حالت بہتر ہو رہی ہے تو اس کا درست پیمانہ غریب طبقے اور مڈل کلاس کی حالت کو دیکھنا ہی قرار پائے گا۔

یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی حکومت میں بڑا سرمایہ دار، صنعت کار، تاجر، بڑے بڑے زمین دار اور مافیاز تگڑے اور امیر ترین ہوتے چلے جا رہے ہیں جبکہ غریب اور مڈل کلاس مسلسل پستے چلے جارہے ہیں۔

یہ وہ امتحان ہے جس میں عمران خان تاحال ناکام نظر آتے ہیں۔ اپنے چوتھے بجٹ کو وزیر اعظم عمران خان نے اگر واقعی عوام دوست ثابت کرنا ہے تو مہنگائی پر نہ صرف کنٹرول بلکہ مہنگائی کی شرح کو کم ترین بھی کرنا ہوگا۔

اس کے ساتھ ساتھ عوام کے لیے روزگار کے مواقعے بڑھانے ہوں گے اور بہتر اور مستحکم معاشی ایکٹیوویٹی کے ذریعے اس بات کا بھی بڑھے وگرنہ ان سب کے بغیر بجٹ محض کاغذی کارروائی تک محدود رہے گا۔

اور عوامی انقلاب اور تبدیلی کے نعرے بھی محض کاغذی اور سیاسی بیان سمجھے جاتے رہیں گے اور عمران خان سے عوامی مایوسی میں اضافہ بھی ہوگا۔


نوٹ: یہ مضمون لکھاری کی ذاتی رائے ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ