کینیڈا: مقتول پاکستانیوں کےبزرگوں نےجامعہ مسجد دہلی میں امامت کی تھی

کینیڈا میں گذشتہ ہفتے اسلاموفوبیا اور دہشت گردی کا نشانہ بننے والے پاکستانی نژاد سلمان افضال کے خاندان کے چاروں افراد کی تدفین کردی گئی ہے۔

پاکستانی نژاد افراد کو  انٹاریو صوبے کے شہر لندن کے اسلامک قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا (فوٹو: اےا یف پی)

کینیڈا میں گذشتہ ہفتے اسلاموفوبیا اور دہشت گردی کا نشانہ بننے والے پاکستانی نژاد خاندان کے چاروں افراد کی تدفین کردی گئی ہے۔ اس موقع پر سینکڑوں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے بے شمار افراد نے بھی شرکت کی۔

اونٹاریو صوبے کے شہر لندن میں گذشتہ اتوار کی رات ایک 20 سالہ نوجوان نے ایک پاکستانی خاندان کے پانچ افراد کو اپنے پک اپ ٹرک سے کچل دیا تھا، جس کے نتیجے میں چار افراد چل بسے جبکہ ایک بچہ زخمی ہوا تھا۔

جان سے جانے والوں کی شناخت 46  سالہ سلمان افضال، ان کی 44 سالہ اہلیہ مدیحہ، 15 سالہ بیٹی یمنیٰ اور 74 سالہ طلعت افضال کے طور پر کی گئی تھی جبکہ ہسپتال میں زیرعلاج بچے کا نام فائز بتایا گیا۔

اس بدقسمت خاندان کے سربراہ 46 سلمان افضال نے فالج کے شکار اپنے والد کی خدمت کے لیے فزیوتھراپی کا شعبه اختیار کیا اور 12 سال ان کی خدمت کرتے رہے۔

کینیڈا میں انہوں نے بزرگ افراد کی دیکھ بھال کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ایک سینیئر ہوم میں فزیو تھراپسٹ کے طور پر خدمات دے رہے تھے۔

دوسری جانب سلمان کی 44 سالہ اہلیہ مدیحہ کے اساتذہ کے مطابق وہ انتہائی ذہین خاتون تھیں اور تعلیم کو انتہائی اہمیت دیتی تھیں۔ ان کی یونیورسٹی نے نسل پرستی کے واقعے کے بعد ان کے نام پر ’مدیحہ میموریل سکالر شپ‘ کا اجرا کیا ہے۔ ۔ یہ وہی یونیورسٹی ہے جہاں سے مدیحہ نے انجینیئرنگ میں ماسٹرز کیا اور اب پی ایچ ڈی کے آخری مراحل میں تھیں۔

ویسٹرن یونیورسٹی سے ہی ان کے شریک حیات سلمان نے 2010 میں ہیلتھ سائنسز میں ماسٹرز کیا تھا۔ مدیحہ اسی یونیورسٹی میں چھ سال سے بطور ٹیچنگ اسسٹنٹ فرائض بھی انجام دے رہی تھیں۔

مدیحہ کے اساتذہ کے مطابق ’انہوں نے نہ صرف ایک خوب صورت خاندان کی تشکیل کی بلکہ ان کا اپنے پروفیشن اور کمیونٹی سے بھی تعلق بہت مضبوط تھا۔‘

74 سالہ طلعت افضال انتہائی ہر دل عزیز استاد تھیں اور ان کے طلبہ اور طالبات ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں جبکہ 15 سالہ یمنیٰ کو آرٹ سے دلچسپی ان کو اپنی دادی سے ورثے میں ملی تھی۔

خاندان کے بزرگوں نے جامعہ مسجد دہلی میں امامت کی 

انڈپینڈنٹ اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے مدیحہ کے بھائی سید ازہر غنی نے بتایا کہ ماضی میں ان کے خاندان کے بزرگوں نے جامعہ مسجد دہلی میں امامت کے فرائض انجام دیے تھے۔  

بقول ازہر غنی: ’مدیحہ کے دادا برٹش انڈیا کے زمانے میں اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ میں آئی اے ایس افسر تھے۔ یہ خاندان دہلی اور شملہ میں آباد تھا۔‘

’1929 میں مدیحہ کے دادا کی پوسٹنگ پشاور ہوگئی تو یہ خاندان دہلی سے پشاور منتقل ہو گیا اور جب سے یہیں آباد ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’ان کے دادا 1959 میں جوائنٹ سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ مدیحہ کے والد، جن کا انتقال چھ ماہ قبل ہوا، ڈاکٹر اور پیتھالوجسٹ تھے۔ 1971 میں انہوں نے ڈاکٹر کی حیثیت سے پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کی اور میجر کی پوسٹ سے ریٹائر ہوئے۔‘

ازہرغنی کے مطابق پاکستان آرمی کی طرف سے ڈیپوٹیشن پر ان کے والد کی پوسٹنگ سعودی عرب ہو گئی تو یہ خاندان کوئی تین سال مکہ کے قریب طائف شہر میں بھی مقیم رہا۔

اہل خانہ کے مطابق مدیحہ نے 2001 میں یو ای ٹی پشاور سے سول انجینیئرنگ میں بیچلرز کیا۔ وہ سول انجینیئرنگ کی کلاس کی واحد خاتون طالبہ تھیں۔

کینیڈا کی ویسٹرن یونیورسٹی میں ان کی ریسرچ کا محور ماحولیاتی مسائل تھے اور وہ زیر زمین پانی کی آلودگی کے حوالے سے کام کر رہی تھیں۔

وہ اپنے بہترین تعلیمی ریکارڈ کے باعث متعدد سکالرشپس حاصل کر چکی تھیں۔ یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق مدیحہ کے ماسٹرز سپروائزر پروفیسر جیسن جیرہارڈ کا کہنا ہے کہ ’وہ انتہائی ذہین خاتون تھیں جو تعلیم کو بہت اہمیت دیتی تھیں اور آلودہ مٹی اور زیر زمین پانی کے حوالے سے تحقیق کے نئے طریقے تلاش میں تھیں۔‘

ویسٹرن یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر موجود ان کے اساتذہ کے تبصروں کے مطابق ان کا خاندان مہمان نواز اور نرم دل تھا۔  

ان کے پی ایچ ڈی کے سپروائزر ارنسٹ ینفل کے مطابق وہ خوش اخلاق، خوش اطوار اور سمجھ دار خاتون تھیں۔  

طلعت افضال ایک ہر دلعزیز استاد

اس واقعے میں جان سے جانے والی سلمان کی والدہ طلعت افضال نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل تھیں۔ وہ 1984 میں ڈویژنل پبلک سکول فیصل آباد میں تدریس کے فرائض انجام دیتی رہی تھیں۔  

لاہور سے تعلق رکھنے والی طلعت کی شاگرد سعدیہ اشتیاق نعمان کے مطابق وہ ان کی تیسرے اور چوتھے گریڈ کی کلاس ٹیچر تھیں اور ہوم اکنامکس بھی پڑھایا کرتی تھیں۔ بعد ازاں وہ اسی سکول میں آرٹس اینڈ کرافٹ کی تعلیم سے وابستہ ہوگئیں۔

سعدیہ کے مطابق: ’وہ اختراعی صلاحیت کی حامل استاد تھیں۔ نفاست اور خوبصورتی کو بہت پسند کرتی تھیں۔ بچیوں سے خاص طور سے بہت پیار سے پیش آتی تھیں اور نصاب سے ہٹ کر نئے نئے طریقوں سے ہمیں سکھانے کی کوشش کرتی تھیں۔‘

انہوں نے بتایا: ’ایک دفعہ ہوم اکنامکس میں انہوں نے ہمیں سکول کے کچن میں چاول ابالنا سکھائے۔ ایک دفعہ سکول کے ایک نو تعمیر شدہ بلاک میں طالبات کے ساتھ مل کر سجاوٹ کا پلان بنایا جو انتظامی وجوہات کی بنا پر ممکن نہ ہو سکا تو وہ بہت مایوس ہوئیں۔‘

سعدیہ کے مطابق طلعت انتہائی زندہ دل خاتون تھیں اور بچوں میں گهل مل جاتی تھیں۔ انہیں چھانگا مانگا کا ایک سکول ٹرپ یاد ہے جس میں وہاں چلنے والی ایک ٹرین میں طلعت نے بچیوں کے ساتھ مل کر معروف موسیقار اور شاعر سہیل رانا کے ٹی وی شو کا ایک گانا گایا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ طلعت افضال کے شاگرد اس وقت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ سعدیہ خود بھی سکاٹ لینڈ کی سٹرلنگ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اس وقت فاطمہ جناح یونیورسٹی میں میڈیا سائنسز ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے برطانیہ میں ان کے شاگرد سلمان شفیق، فیصل آباد میں ڈاکٹر کاشف منہاس اور آسٹریلیا میں نجم ثاقب سے بھی رابطہ کیا۔ 

ان سب نے بتایا کہ وہ والدین کی طرح بہت پیار سے اپنے طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں، ہمیشہ مسکراتی رہتی تھیں، خوش پوش اور جاذب نظر شخصیت کی مالک تھیں۔

یمنیٰ کو آرٹ سے دلچسپی اپنی دادی سے ورثے میں ملی 

پشاور کے رہائشی یمنیٰ سلمان کے ماموں ازہر غنی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ طلعت بہت کامیاب آرٹسٹ تھیں اور یمنیٰ کو آرٹ سے دلچسپی دادی سے ورثے میں ملی تھی۔

ماموں کے مطابق انہوں نے جونیئر سکول چھوڑتے وقت سکول سے درخواست کی تھی کہ وہ سکول کی ایک دیوار اپنی والدہ مدیحہ کے ساتھ مل کر پینٹ کرنا چاہتی ہیں۔

سکول کی دیوار پر ان کے لکھے ہوئے الفاظ ’چاند پر پہنچنے کی کوشش ضرور کرو۔ اگر چاند پر نہ بھی پہنچ سکے تو ستاروں میں شامل ہو جائیں گے‘ آج بھی موجود ہے۔

مدیحہ کے چھوٹے بھائی ازہر غنی نے بتایا: ’طلعت افضال ہماری دور کی رشتے دار تھیں، بہت پیار کرنے والی اور نرم دل اور نیک خاتون تھیں جنہوں نے طویل عرصے اپنے فالج کے شکار شریک حیات کی خدمت کی۔‘

سلمان انتہائی شفیق شخص تھے

ازہر غنی کا کہنا ہے کہ ’ان کے بہنوئی سلمان نے فزیوتھراپی کا پیشہ اپنے والد کی بیماری کے باعث اختیار کیا تاکہ وہ اس ہنر کے ذریعے اپنے والد کی خدمت کر سکیں۔‘

’انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے فزیوتھراپی کی تعلیم حاصل کی اور کینیڈا آنے سے قبل 12 سال اپنے والد کی خدمت کرتے رہے۔‘

بقول ازہر غنی:’2007  میں کینیڈا جا کر انہوں نے لندن کی ویسٹرن یونیورسٹی سے ہیلتھ سائنسز میں ماسٹرز کیا۔ ان کی سپیشلائزیشن بھی Geriatrics  یعنی بزرگوں کی دیکھ بھال کا شعبه تھی۔ وہ لندن کے ایک سینیئر ہوم میں اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔‘

ازہر کے مطابق: ’سلمان کو مسجد سے بہت دلچسپی تھی۔ وہ اگر ساری رات کے جاگے ہوئے بھی ہوں تو فجر کی نماز مسجد میں ہی ادا کرتے تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’سلمان انتہائی بے نیاز اور پرسکون رہتے تھے، اگر کوئی ان کے پاس اپنا مسئلہ لے کر جائے تو جب تک مسئلہ حل نہ کروا دیں وہ انتہائی بے چین رہتے تھے۔ ان کو آپ پریشان صرف اس وقت دیکھتے تھے جب کوئی اپنا مسئلہ ان کے پاس لے کر جاتا تھا۔‘

سلمان کے پڑوسی اور لندن شہر کی مسلم ایسوسی ایشن کے صدر صبور خان اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سلمان پاکستانی اور مسلم کمیونٹی میں انتہائی سرگرم تھے اور دوسروں کے مسائل حل کرنے میں بے انتہا دلچسپی لیتے تھے۔ ’آپ جب بھی مسجد جائیں، آپ انہیں وہاں پائیں گے۔‘

بھرائی ہوئی آواز میں صبور خان نے بتایا کہ سلمان اور ان کا خاندان پشاور سے ایک دوسرے کو جانتے تھے اور 14 سال سے کینیڈا میں ایک خاندان کی طرح ایک دوسرے سے قریب تھے۔

’چند روز قبل میرے بیٹے کی پیدائش پر وہ تحائف وغیرہ لے کر میرے گھر آئے تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا اب وہ نہیں ہوں گے تو زندگی کیسے گزرے گی۔‘

مدیحہ کے بھائی ازہر غنی کا کہنا ہے کہ ’ہمارا اور سلمان دونوں کا خاندان سادات ہے۔ دنیا میں ہر فرد کو اپنا عقیدہ رکھنے کا حق ہے لیکن کچھ لوگ سوشل میڈیا پر خبر پھیلا رہے ہیں کہ حادثے کا شکار خاندان احمدی ہے۔ یہ امر ہمارے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہمارے خاندان کا شجرہ مدینہ منورہ سے تصدیق شدہ ہے اور ہمارا شجرہ براہ راست پیغمبر رسول سے ملتا ہے۔‘

ازہر غنی نے کہا: ’ہم درخواست کرتے ہیں کہ خاندان کے واحد زندہ بچ جانے والے فائز سلمان کی پرائیویسی کا احترام کریں اور ہمارے خاندان کے بارے میں ایسی خبریں نہ پھیلائیں جس سے خاندان اس موقعے پر مزید اذیت کا شکار ہو۔‘

اسلاموفوبیا سے متاثرہ اس خاندان کے واحد بچ جانے والے نو سالہ فائز کے مستقبل کے لیے کینیڈا اور امریکہ میں قائم فنڈ میں اب تک لاکھوں ڈالرز جمع ہو چکے ہیں۔

صرف ایک ویب سائٹ پر جمع ہونے والی رقم ساڑھے آٹھ لاکھ ڈالرز سے تجاوز کر چکی ہے لیکن فائز کے ماموں ازہر غنی کا کہنا ہے کہ یہ تمام رقم صدقہ جاریہ اور فلاح عامہ کے منصوبوں کے لیے استعمال ہوگی۔

یاد رہے کہ فنڈ دینے والوں میں کینیڈا اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے غیرمسلم بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

ازہر غنی کا کہنا ہے کہ جمع ہونے والی اس رقم سے سلمان کے نام سے فزیوتھراپی کا کوئی ہسپتال کھولا جا سکتا ہے لیکن فنڈ کیسے استعمال ہوگا اس کا آخری فیصلہ دونوں خاندانوں کے افراد مل کر کریں گے۔  

فائز مغربی معاشرے میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے واقعے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ ’اسلاموفوبیا کینیڈا کے معاشرے میں موجود ہے جس کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔‘

ازہر کا کہنا ہے کہ ’ہم حکومت پاکستان، حکومت کینیڈا اور خاص طور سے شاہ محمود قریشی کے شکر گزار ہیں جنہوں نے والدہ کے سفر کے حوالے سے بھرپور تعاون کیا۔‘

واضح رہے کہ فائز کی نانی ان کے اہل خانہ کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے کینیڈا پہنچی تھیں۔

اس مثالی خاندان کے چار افراد اس دنیا میں نہیں رہے لیکن نو سالہ فائز اس وقت اپنے والدین، بہن اور دادی کو کھونے کے بعد ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

ان کی حالت خطرے سے باہر ہے لیکن کیا وہ کبھی اپنے پورے خاندان کو گاڑی سے کچلے جانے والے اس منظر کو بھلا سکیں گے یا نہیں؟ اس کا جواب آسان نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان