ریسلنگ، پولیس اور پھر ڈبلیو ڈبلیو ای تک کا سفر

علی یہ دونوں معاملات ایک ساتھ چلاتے رہے ہیں اور وہ ریسلنگ کے مقابلوں اور پولیس ڈیوٹی کے درمیان پینڈولم بن چکے تھے۔

تصویر: ڈبلیو ڈبلیو ای

پیشہ ورانہ کشتی دیو مالائی کہانیوں کے لیے نئی نہیں ہے، لیکن اس میں چند ہی لوگ ہوں گے جو علی سے موازنہ کر سکتے ہیں۔ علی اس وقت ڈبلیو ڈبلیو ای کے ساتھ برطانیہ کے دورے پر ہیں۔

علی کا اصل نام عدیل عالم ہے اور یہ کھیلوں کی اس کمپنی کی تاریخ میں اتنے جلدی عروج پانے والے پہلے کھلاڑی ہیں۔ وہ رومن رینز اور ای جے سٹائل جیسے نامور ریسلرز کے ساتھ یورپ کا دورہ کر رہے ہیں۔

یہ اپنے آپ میں ہی ایک کہانی ہے لیکن یہ 33 سالہ علی کی جدوجہد سے انصاف نہیں کرتی جو انہوں نے ڈبلیو ڈبلیو ای کا حصہ بننے کے لیے کی ہے اور اب وہ سمیک ڈاؤن لائیو کے روسٹر میں شامل ہیں۔

نسبتاً کم عمری میں یہ ناقابل یقین ہے ایسے فرد کے لیے جو دو بچوں کے باپ ہونے کے ساتھ ایک اور مکمل کریئر بھی نبھا رہے ہیں۔ ان میں موجود ریسلنگ کا شوق اس حد تک زیادہ ہے کہ وہ امریکہ میں پولیس کی نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ کشتی کرتے اور اپنا نام بنانے کی کوشش کرتے رہے۔

بلند چھلانگیں لگانے والے علی بہت کھلے انداز میں اپنی دو نوکریوں کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ پولیس کی نوکری اختیار کرنے سے پہلے اس بات سے خوفزدہ تھے کہ وہ کبھی ریسلر نہیں بن سکیں گے۔

شکاگو میں چار سال پولیس کی وردی میں فرائض سرانجام دینے کے بعد آخر کار وہ ڈبلیو ڈبلیو ای کے ساتھ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

علی کہتے ہیں :’ریسلنگ میرا زندگی بھر کا خواب تھا میں 16 سال کا تھا جب میں نے ریسلنگ شروع کی اور آج 17 سال بعد میں اس مقام پر پہنچا ہوں۔‘

’یہ میرا ہمیشہ سے خواب تھا جب میں آنکھیں بند کرتا تھا تو میں خود کو کشتی کرتے اور میڈیا پر بات کرتے دیکھتا تھا۔ لیکن جب میں آنکھیں کھولتا تھا تو حقیقت اس سے بہت مختلف تھی۔ پیسہ، گھر، بیمار رشتے دار اور ایک اصل زندگی میرے راہ میں رکاوٹ تھی۔ میں ایک طرف اپنے خواب کا پیچھا کر رہا تھا لیکن میں یہ بھی سمجھتا تھا کہ ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ یہ ایک قدم آگے اور ایک قدم پیچھے جانے جیسا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں: ’مجھے پولیس افسر بننے کا موقع ملا۔ میرا ایک دوست پولیس میں نوکری کے ساتھ ساتھ کشتی بھی کرتا تھا۔ وہ مجھے بتایا کرتا تھا کہ وہ ایسا کر کے کتنا خوش ہے اور اسے اپنے نوکری اور اپنا شوق دونوں پورا کرکے کتنی خوشی ہوتی ہے۔‘

’میں سوچتا تھا کہ پولیس میں رہنے سے میں ایسا کام کر سکتا ہوں جس سے میں لوگوں کی زندگیاں بدل سکتا ہوں اس لیے میں پولیس میں آگیا اور میں تیار تھا کہ پوری زندگی یہی نوکری کروں گا جب تک ریٹائر نہیں ہو جاتا۔ لیکن اس کے باوجود میں ریسلنگ کو نہیں بھول سکا۔ پولیس کی نوکری کے ساتھ ساتھ میں آزادانہ ریسلنگ میں بھی حصہ لیتا تھا لیکن میری روٹین بہت سخت تھی۔‘

علی اپنی محنت کو کم بتا رہے ہیں۔ پولیس کی نوکری اپنے آپ میں ایک مکمل زندگی ہے۔ اچھے حالات میں بھی آپ ایک بہت چینلینجنگ کرئیر کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔ دوسری جانب ریسلنگ بغیر دیوانہ وار محنت کے جاری رکھنا نا ممکن ہے۔ آپ ان تھک محنت اور لگن کے بغیر ریسلنگ کی مشکل دنیا میں اپنا نام نہیں بنا سکتے۔

یہ بھی ایک حیران کن بات ہے کہ علی یہ دونوں معاملات ایک ساتھ چلاتے رہے ہیں اور وہ ریسلنگ کے مقابلوں اور پولیس ڈیوٹی کے درمیان پینڈولم بن چکے تھے۔ آخری لمحے تک انہیں اس بات کا یقین نہیں تھا کہ پیشہ ورانہ ریسلر بننے کا ان کا خواب تعبیر میں بدل سکتا ہے۔  

’جب تک ڈبلیو ڈبلیو ای کی جانب سے آفیشل آفر نہیں آگئی کچھ واضح نہیں تھا۔ میں ایک پولیس افسر ہی تھا جب تک میں جونئیر کلاسک اور این ایکس ٹی جیسے مقابلوں میں حصہ لے رہا تھا۔ یہ آزادانہ ریسلنگ شو تھے جہاں میں اپنی مرضی سے حصہ لیتا تھا۔ میں نو بجے مقابلے میں حصہ لیتا تھا اپنی گاڑی میں سوار ہوتا اور پولیس سٹیشن کی طرف بھاگتا کیوں کہ 11 بجے میری شفٹ شروع ہوتی تھی۔ میں شفٹ سے پہلے ہی پہنچ جاتا تھا کبھی میں پسینے سے شرابور ہوتا کبھی میری آنکھ سوجھی ہوتی اور میرے ساتھ کام کرنے والے ایک دوسرے سے پوچھتے، اس لڑکے کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟۔‘

’اب میں پولیس کی نوکری چھوڑ چکا ہوں۔ جمعہ میری نوکری کا آخری دن تھا اور اس سے اگلے سوموار کو میں نے ٹی وی پر ریسلنگ کرتے نظر آنا تھا۔‘

 ’میں نے اس کے لیے بہت محنت کی تھی اور ہمیشہ اپنے خواب پر یقین رکھا اور اس وجہ سے مجھے کامیابی ملی ہے‘۔

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل