افغان افواج کی تربیت کے لیے نیٹو کی نظریں قطر پر

نیٹو کے تین سینیئر مغربی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے بعد محفوظ اڈے فراہم کرنے کے لیے نیٹو نے قطر سے رابطہ کیا ہے اور ان اڈوں کو افغان سپیشل فورسز کی تربیت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

25 مارچ 2020 کی اس تصویر میں  نیٹو فوجی افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہونے والے ایک حملے کے مقام کے قریب  موجود ہیں (فائل فوٹو:روئٹرز/محمد اسماعیل)

نیٹو کمان کے تحت کام کرنے والے سکیورٹی حکام کے مطابق افغانستان سے انخلا کے بعد محفوظ اڈے فراہم کرنے کے لیے نیٹو نے قطر سے رابطہ کیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نیٹو کے تین سینیئر مغربی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ان اڈوں کو افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغان سپیشل فورسز کی تربیت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

دو عشروں پر محیط اس جنگ کے بعد افغانستان میں نیٹو کے ریزولیوٹ سپورٹ مشن میں شامل 36 ممالک کی افواج 11 ستمبر تک امریکی فوجیوں کے انخلا کے ساتھ افغانستان سے واپسی کے لیے تیار ہیں۔

کابل میں موجود مغربی افواج کے ایک سینئیر اہلکار کے مطابق: ’ہم فوج کے سینیئر ارکان کے لیے خصوصی تربیت گاہ بنانے قائم کرنے کے لیے قطر میں ایک اڈے کی نشاندہی کرنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔‘

مذکورہ عہدیدار، جو افغانستان میں موجود امریکی قیادت میں نیٹو اتحاد کا حصہ ہیں، نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی کیونکہ انہیں صحافیوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

نیٹو کے ریزولوٹ سپورٹ مشن کا ایک لازمی حصہ افغان سکیورٹی فورسز کو طالبان کے خلاف لڑائی کی تربیت دینا تھا، جو 2001 میں اقتدار سے بے دخل ہوئے اور اس کے بعد موجودہ شورش کا آغاز ہوا۔

واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک اور سکیورٹی ذرائع نے بتایا: ’ہم نے پیشکش کی ہے لیکن قطر کے حکام یہ فیصلہ کریں گے کہ وہ اپنے علاقے کو تربیتی میدان کے طور پر نیٹو کو دینے کے لیے راضی ہیں یا نہیں۔‘

اسی طرح کابل میں مقیم ایک سفارت کار کے مطابق: ’افغان سپیشل فورس کے ارکان کو تقریباً چار سے چھ ہفتوں کی سخت ٹریننگ کے لیے قطر لانا زیربحث ہے۔‘

مذکورہ خلیجی ریاست کو افغان افواج کی تربیت کے لیے اڈے کے طور پر استعمال کرنے کی تجویز سے متعلق قطری حکومت اور نیٹو کے مواصلاتی دفتر نے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔

دوسری جانب افغان حکومت نے بھی تبصرہ کرنے کی درخواست پر جواب نہیں دیا۔

افغانستان میں تقریباً 7000 غیر امریکی فوجی، جن میں بنیادی طور پر نیٹو ممالک بلکہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جارجیا بھی شامل ہیں، انخلا کرنے والے 2500 امریکی فوجیوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہیں۔

غیر ملکی افواج کا حتمی انخلا ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کئی صوبوں میں طالبان اور افغان فورسز کے مابین لڑائی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔

خدشہ ہے کہ انخلا کے بعد طالبان افغانستان فوج پر غلبہ پا لیں گے کیوں کہ ان کا زیادہ تر انحصار نیٹو کی حمایت، ان کی انٹیلی جنس، رسد اور خصوصاً امریکی فضائی مدد پر تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حالیہ ہفتوں میں ہی عسکریت پسندوں کی جانب سے بڑی تعداد میں فوجی کاروائیاں اور مختلف اضلاع سمیت فوجی اڈوں پر قبضہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔

رواں ماہ کے شروع میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینس سٹولٹن برگ نے کہا تھا کہ ’نیٹو اتحاد اس بات پر غور کر رہا ہے کہ ہم کس طرح افغان سکیورٹی فورسز، خاص طور پر سپیشل آپریشن فورسز کو ملک سے باہر تربیت فراہم کرسکتے ہیں۔‘

توانائی سے مالا مال خلیجی ریاست قطر 2013 سے طالبان کے سیاسی دفتر کا گھر ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ واحد معروف مقام رہا ہے جہاں سخت گیر باغی گروپ کے مجاز نمائندوں نے امریکی حکام، نیٹو کے نمائندوں اور بین الاقوامی عہدیداران کے ساتھ بات چیت کی ہے۔

دیگر دو ذرائع کے مطابق امریکہ، برطانیہ اور ترکی ان نیٹو ممالک میں شامل تھے جو قطر میں افغانوں کی تربیت کے لیے فورس بھیجنے کو تیار ہیں۔

دوسری جانب طالبان کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ وہ افغان افواج کی قطر میں تربیت کے بارے میں نیٹو منصوبے سے آگاہ نہیں ہیں۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق: ’افغان فوجی جو بیرون ملک فوجی تربیت حاصل کرتے ہیں ۔۔۔ اگر امن قائم ہوتا ہے تو شاید تربیت یافتہ افراد کو افغانستان کی خدمت کے لیے رکھا جائے لیکن اگر وہ آکر ہمارے اور اپنی قوم کے خلاف لڑتے ہیں تو یقیناً ہمیں ان پر اعتماد کبھی نہیں ہوگا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا