جنگ زدہ میانمار: ہزاروں لوگ جنگلوں میں پناہ پر مجبور

کئی مسائل کا سامنا کرنے والے ان افراد کے مصائب میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے کیوں کہ میانمار کی مون سون بارشوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جہاں یہ لوگ محض پلاسٹک کی شیٹ کے نیچے پناہ لیے ہوئے ہیں۔

(اے ایف پی)

میانمار میں جنگ سے فرار ہو کر جان بچانے والے ہزاروں افراد جنگلوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

جنگلوں میں قائم کچھ کیمپوں میں چند درجن افراد مقیم ہیں جب کہ کچھ میں یہ تعداد ہزار سے زیادہ ہے۔

کئی مسائل کا سامنا کرنے والے ان افراد کے مصائب میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے کیوں کہ میانمار کی مون سون بارشوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جہاں یہ لوگ محض پلاسٹک کی شیٹ کے نیچے پناہ لیے ہوئے ہیں۔

مشرقی میانمار کی ریاست کایہ میں حالیہ جنگ سے فرار ہو کر جنگلوں کا رخ کرنے والے ان افراد کا کہنا ہے کہ یہاں خوراک کی کمی اور بیماریوں کے پھیلنے کے آثار پیدا ہو رہے ہیں۔

یکم فروری کی بغاوت میں جمہوریت پسند آنگ سان سوچی جماعت کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ملک کے اس خطے میں کئی تنازعات نے جنم لیا ہے۔

ایک 26 سالہ شہری نے پورا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: ’یہاں کچھ بچے اسہال کا شکار ہیں۔ یہاں صاف پانی ملنا مشکل ہے۔ کچھ لوگوں کو چاول یا کھانے کی دیگر اشیا میسر نہیں ہیں۔ ایسی صورت حال میں ہم دعا ہی کر سکتے ہیں۔‘

اقوام متحدہ کے ایک تخمینے کے مطابق حالیہ تشدد سے میانمار کی ’کیہ‘ ریاست میں ایک لاکھ دس ہزار افراد بے گھر ہوئے ہیں۔

شمالی اور مغربی میانمار میں بھی بغاوت کے بعد سے اب تک تقریباً دو لاکھ افراد اپنے گھروں سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔

2017 میں فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں سات لاکھ روہنگیا مسلمانوں کے جبری انخلا کے بعد یہ انتشار کے شکار ملک میں لوگوں کے بے گھر ہونے کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

فوجی حکومت ’جنتا‘ سے اس بارے میں تبصرے کے لیے رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔

حکومت اپنے مخالفین کو دہشت گرد قرار دیتی ہے جس میں خطے میں لڑنے والی نو تشکیل شدہ کیرننی نیشنل ڈیفنس فورس سمیت پیپلز ڈیفنس فورسز بھی شامل ہیں۔ ابتدا میں انہوں نے فوج کو جانی نقصان کا ذمہ دار ٹہرایا تھا۔

اگرچہ حکومتی گروپ نے کہا ہے کہ وہ کمیونٹیز کی اپیلوں کے بعد منگل کو اپنے حملے روک دے گا لیکن جنگل میں پناہ لینے والے بہت سے لوگ اپنے گھروں کو واپس جانے کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

جنگل میں پناہ لینے والے کینیڈی کا کہنا ہے کہ ’جنگ بندی کے دوران دور دراز علاقوں سے کچھ لوگ چاول اور دیگر سامان لینے اپنے گھروں کو گئے تھے لیکن زیادہ تر میں وہاں رہنے کی ہمت نہیں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’کیمپ میں رہنا اپنے گھروں میں رہنے سے زیادہ محفوظ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

منگل کو جاری ایک بلیٹن میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور نے کہا کہ مشکلات کی شکار مقامی برادریوں کے لیے قومی اور بین الاقوامی گروہوں کی طرف سے امداد کی کوششیں ان کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا: ’عدم تحفظ اور رکاوٹوں کی وجہ سے امداد کی رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔‘

جنگل میں مقیم کچھ بے گھر افراد خوراک کے حصول کے لیے رات کے اندھیرے میں ویران شہروں اور دیہاتوں کا رخ کرنے پر بھی مجبور ہیں۔

کیرننی ہیومن رائٹس گروپ کے ڈائریکٹر بانیا خنگ آنگ نے بتایا کہ امداد لانے کی کوشش کے دوران جنتا فورسز نے کم از کم تین رضاکار کو ہلاک کر دیا تھا۔

انہوں نے کہا: ’آبادی کا ایک تہائی حصہ جنگل میں ہے جنہیں نظرانداز کرنے سے بہت سی جانوں کا ضیاع ہوسکتا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا