پاکستان میں ’کم شوگر‘ والے آم متعارف

صوبہ سندھ کے ایک کاشت کار نے کہا ہے کہ انھوں نے کم شوگر والے تین قسموں کے آم تیار کر کے پہلی مرتبہ بازار میں فروخت کے لیے پیش کر دیے ہیں۔

صوبہ سندھ کے ایک کاشت کار نے کہا ہے کہ انھوں نے شوگر کی کم مقدار والے آموں کی تین اقسام تیار کر کے ’حکومتی تصدیق‘ کے بعد پہلی مرتبہ بازار میں فروخت کے لیے پیش کر دیے ہیں۔

آموں کے کاشت کار غلام سرور پنہور کا تعلق ضلع حیدرآباد سے ہے۔ وہ ایم ایچ پنہور فارمز کے شریک چیئرمین ہیں، جو ان کے چچا کے نام سے منسوب ہے۔

یہ فارمز گذشتہ کئی دہائیوں سے ملکی و غیر ملکی شہرت کے حامل ہیں۔ غلام سرور کا دعویٰ ہے کہ ایم ایچ پنہور فارمز نے پاکستان میں لو شوگر لیول آموں کو متعارف کرانے میں پہل کی ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے لو شوگر لیول آموں کی پیداوار پر چار پانچ سال پہلے کام شروع کیا تھا، جس میں اس وقت ہم کامیاب ہو گئے ہیں۔ آموں کی اقسام میں کیٹ، بگ سونہرو اور گلین شامل ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے ذیلی ادارے فوڈ کوالٹی اینڈ سیفٹی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کراچی نے گذشتہ سال تجزیے کے بعد ان آموں میں کم شوگر لیول کی دستاویز جاری کی تھیں۔

اس دستاویز کے مطابق ایم ایچ پنہور فارمز سے حاصل ہونے والے کیٹ نسل کے آموں میں شوگر کی مقدار 4.7 فیصد، سونہرو میں 5.6 فیصد جبکہ گلین میں شوگر کی مقدار چھ فیصد ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دستاویز کے مطابق ان فارمز سے حاصل ہونے والے سندھڑی آم میں شوگر کی مقدار 12.8 فیصد ہے۔

غلام سرور نے بتایا کہ تینوں اقسام کی پیداوار کا وقت مختلف ہے جو جون سے لے کر جولائی کے درمیان ہے۔

اس کے علاوہ ان کی تازگی برقرار رہنے کی میعاد بھی مختلف ہے جو آٹھ سے 15 دن تک ہے۔ اس کے علاوہ تینوں کے نرخ، حجم اور رنگ میں بھی فرق ہے۔

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ان کی قیمتیں دوسرے آموں کی اقسام کے برابر ہی ہیں۔

غلام سرور نے بتایا کہ لو شوگر لیول آموں کی کاشت ابتدائی طور پر 25 ایکڑ اراضی پر کی گئی اور ان کی کوشش ہے کہ وہ ان کو آن لائن کراچی، حیدرآباد اور پاکستان بھر کے بڑے سٹورز پر فروخت کریں تاکہ وہاں پر بھی یہ آم دستیاب ہوں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا