سائنس دانوں نے ہچکیوں کا فوری علاج تلاش کرلیا

ہچکیاں اس وقت آتی ہیں جب ڈایا فرام اور پسلیوں کے درمیانی پٹھے اچانک سکڑ جاتے ہیں اور ہچکی کی آواز پیدا ہوتی ہے جس سے ہوا اندر کی جانب جاتی ہے اور بات کرنے کا راستہ بند کر دیتی ہے۔

’ہک اوے ‘سٹرا نامی آلہ سائنسدانوں نے یونی ورسٹی آف ٹیکساس ہیلتھ سائنس سینٹر میں تیار کیا ہے (فوٹو: ہک اوے)

سائنس دانوں کے ایک گروپ نے پینے کے سٹرا جیسا ایک آلہ بنایا ہے، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ہچکیوں کو روک دیتا ہے۔

تازہ تحقیق کے مطابق ’ہک اوے‘ نامی یہ آلہ ’فورسڈ انسپائریٹری سکشن اینڈ سوالو‘ ہے جس کے ذریعے ہچکیوں میں مداخلت کرکے انہیں کئی گھنٹوں تک روکا جاسکتا ہے۔

سان اینٹونیو کی یونیورسٹی آف ٹیکساس ہیلتھ سائنس سینٹر کے جو سائنس دان اس تحقیق پر کام کر رہے تھے، انہوں نے اس آلے کے دانشورانہ حقوق اس وقت حاصل کرلیے، جب تحقیق سے ثابت ہوگیا کہ یہ آلہ 92 فیصد کیسز میں ہچکیوں کو روکنے میں کامیاب رہا ہے۔

انہوں نے 249 رضاکاروں کے ایک گروپ کا سروے کیا، جس میں سے دو تہائی سے زیادہ نے بتایا کہ انہیں مہینے میں کم ازکم ایک بار ہچکی آئی۔

سروے میں حصہ لینے والے 90 فیصد سے زیادہ شرکا کا کہنا تھا کہ انہیں ان گھریلو ٹوٹکوں کے مقابلے میں ’ہک اوے‘ سٹرا زیادہ آسان لگا جن میں سانس روکنا یا پھر گلاس کے دور والے حصے سے پانی پینا شامل ہے۔

یہ سٹرا نما آلہ اس طرح کام کرتا ہے کہ اس کے ذریعے پانی پینے کی کوشش کی جائے۔ اس آلے کے اندر موجود ایک والو پینے والے کو مجبور کرے گا کہ وہ اور زیادہ طاقت سے پانی پینے کی کوشش کرے۔ اس سے انسان کی ’فرینک نرو‘ ڈایا فرام کو سکیڑے گی۔

بار بار پانی پینے کی کوششیں انسان کی واگس نرو کو متحرک کر دیتی ہے، کیونکہ فرینک اور واگس دونوں نروز ہچکیوں کی ذمہ دار ہوتی ہیں، لہذا سائنسدان سمجھتے ہیں کہ دونوں کو متحرک کرنے سے وہ ہچکیاں پیدا کرنے سے رک جاتی ہے۔

ہچکیاں اس وقت آتی ہیں جب ڈایا فرام اور پسلیوں کے درمیانی پٹھے اچانک سکڑ جاتے ہیں اور ہچکی کی آواز پیدا ہوتی ہے، جس سے ہوا اندر کی جانب جاتی ہے اور بات کرنے کا راستہ بند کر دیتی ہے۔

یہ پورا عمل عارضی ہوتا ہے لیکن چند کیسز میں یہ گھنٹوں اور دنوں تک بھی چلتا رہتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر علی سیفی یونیورسٹی میں نیورو سرجری کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور اس تحقیق کے شریک مصنف بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہچکیاں چند افراد کے لیے کبھی کبھار بڑی پریشان کن ہو جاتی ہیں لیکن دوسروں کے لیے یہ زندگی کے معیار کو نمایاں طور پر متاثر بھی کرتی ہے۔‘

ان کے مطابق: ’اس میں دماغ اور فالج کی بیماریوں میں مبتلا افراد شامل تھے اور بہت سے کینسر کے مریض بھی شامل ہیں۔ اس مطالعے میں ہمارے پاس کینسر کے متعدد مریض تھے، جہاں چند کیموتھراپیز ہچکی کا سبب بنیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ کم لاگت والا ہک اوے نامی آلے کی کولوراڈو کی ایک کمپنی نے یونیورسٹی کے ساتھ لائسنس کے معاہدے کے تحت تشہیر کی ہے، جس کے بعد اسے ایک بڑی سپر مارکیٹ چین نے اپنے شیلف پر رکھ کر فروخت کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ یہ آلہ 14 امریکی ڈالرز میں فروخت ہوگا۔

البتہ اس تحقیق کی حدود یہ ہیں کہ یہ کسی کنٹرول گروپ کی غیر موجودگی میں کی گئی ہے اور شرکا نے اپنے تجربات کی بنیاد پر ہک اوے آلے کے بارے میں رائے دی ہے، جو موضوعی نوعیت کا درجہ بندی کا نظام ہے۔

یہ تحقیق جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع ہوئی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں کی جانے والی تحقیق میں اس آلے کی افادیت کو مختلف کلینکل ٹرائلز میں جانچنے کی کوشش کی جائے گی۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی صحت