فیض آباد احتجاج: ’جاہل طلبہ نہیں، حق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں‘

طلبہ آن لائن امتحانات کے لیے احتجاج کرنے فیض آباد انٹر چینج پر نکلے تو پولیس نے حالات قابو سے باہر ہونے سے قبل ہی انہیں منتشر کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے اور کئی طلبہ کو گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد طلبہ نے حکومت کے خلاف ٹوئٹر پر اپنا غصہ نکالا۔

(تصویر: محمد زرین ٹوئٹر اکاؤنٹ)

وفاقی وزیر برائے تعلیم شفقت محمود نے گزشتہ روز قومی اسمبلی سے خطاب کے دوران اعلان کیا تھا کہ 10 جولائی کے بعد میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات ہر صورت لیے جائیں گے۔

اس اعلان کے بعد آن لائن امتحانات کے لیے بار ہا احتجاج کرنے والے طلبہ نے ایک بار پھر احتجاج کرنے کی ٹھان لی اور آل پاکستان سٹوڈنٹ محاذ نے اس کا باضابطہ اعلان بھی کر دیا۔ طلبہ نے مطالبہ رکھا کہ ’امتحانات کینسل کرکے ہمیں اگلی جماعت میں پروموٹ کیا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طلبہ تنظیم نے اعلان کیا کہ احتجاج کا آغاز راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والے سب سے اہم مقام فیض آباد انٹرچینج سے کیا جائے گا اور اس کا اختتام ڈی چوک پر ہو گا۔ فیض آباد انٹرچینج پر احتجاج جڑواں شہروں کی ٹریفک کو مفلوج کر کے شہریوں کو انتظار کی اذیت سے دوچار کر دیتا ہے۔ پچھلی مرتبہ طلبہ کی جانب سے اسی  مقام پر احتجاج کے دوران نہ صرف گاڑیوں پر پتھر برسائے گئے تھے بلکہ توڑ پھوڑ بھی کی گئی تھی جس نے جڑواں شہر کے باسیوں کو نہ صرف مالی نقصان بلکہ ذہنی کوفت میں بھی مبتلا کر دیا تھا۔

آج طلبہ احتجاج کے لئے نکلے تو پولیس نے حالات قابو سے باہر ہونے سے قبل ہی انہیں منتشر کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے اور کئی طلبہ کو گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد طلبہ نے حکومت، انتظامیہ اور خاص طور پر وزیر تعلیم شفقت محمود کے خلاف ٹوئٹر پر اپنی بھڑاس نکالی اور 24 جون فیض آباد احتجاج ٹرینڈ کرنے لگا۔ اب تک اس ٹرینڈ پر ایک لاکھ 27 ہزار ٹویٹس کی جا چکی ہیں۔

ایک صارف نے تحریر کیا کہ ’آپ کیسے ان طالب علموں کو گرفتار کر سکتے ہیں جو اپنے حق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں؟ پرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے۔ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔‘

محمد زکریا ربانی نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ’جب تک طلبہ کو رہا کرکے، ہمیں اگلی جماعت میں نہیں بھیجا جاتا ہم تب تک دھرنا دیں گے۔ ہم مریں گے، مٹ جائیں گے، جو کرنا ہے کر لو۔‘

اینجل ہارٹس کے نام سے ٹوئٹر اکاؤنٹ کی جانب سے ٹویٹ کی گئی کہ ’ہم جاہل طلبہ نہیں ہیں، ہم اپنے حق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔‘

محمد علی نے سوال اٹھایا کہ ’ آزادی کے علم بردارو اب کہاں گئے تم، لوگوں کی چیخیں طلبا کے ساتھ ہوتا ظلم نظر نہیں آ رہا کیا؟‘

اقتدار خان نے تحریر کیا کہ ’حکومت کی نظر میں ہماری کوئی اہمیت نہیں ہے، حکومت کرونا کی وجہ سے امتحانات منسوخ کر سکتی ہے مگر ہماری وجہ سے نہیں، (میں بالکل تیار نہیں ہوں)۔‘

سیدہ ثنا شہزاد نے لکھا کہ یہ احتجاج ہماری کامیابی کی ضمانت تھے اس لیے انہوں نے اسے خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر ہم اپنا حق لے کے رہیں گے۔ انشااللہ۔

آخری اطلاعات تک پولیس نے درجنوں طلبہ کو گرفتار کر لیا ہے اور جڑواں شہر کی اہم شاہراہوں کو کلیئر کر کے ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس