غزہ کی تعمیر نو کا چیلنج اور عالمی برادری

فنڈز کی کمی کا رونا رونے والی فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ نے 32 ملین ڈالر مالیت کا نیا مکان اور 50 ملین ڈالر کا جیٹ طیارہ کیسے خرید لیا؟

 فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس 25 مئی 2021 کو رام اللہ میں امریکی وزیرِ خارجہ سے ملاقات کے موقعے پر (اے ایف پی)  

امریکہ میں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ غزہ کے جنگ سے متاثرہ افراد تک امداد پہنچانے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کا چینل استعمال کیا جائے تاکہ یہ امداد واشنگٹن کی طرف دہشت گرد قرار دی جانے والی اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے ہاتھ لگنے سے محفوظ رہ سکے۔ اس مطالبے کے پیچھے کون سے طویل المیعاد عوامل کار فرما ہیں انہیں سمجھنا ضروری ہے۔

لیکن دوسری جانب امریکی عوام ہی کی ایک بڑی اکثریت عرب۔اسرائیل تنازع کو مستحکم انداز میں حل کرنے کی خاطر فلسطینی اتھارٹی پر انحصار کو خام خیالی سمجھتی ہے۔ امریکی کانگریس نے 1987 میں اینٹی ٹیرر ایکٹ نامی قانون منظور کیا، جس میں تنظیم آزادی فلسطین [پی ایل او] اور اس کی ذیلی انجمنوں کو دہشت گردی کے سپانسر قرار دے کر انہیں امریکی مفادات کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ فلسطینی اتھارٹی پر آج بھی اس قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ سے پہلے تمام امریکی صدور نے اس قانون کی شرائط میں نرمی برتی، تاہم یہ قانون اپنی جگہ موجود ہے۔ اس قانون کو ٹیلر فورس ایکٹ مجریہ 2018 کے ذریعے زیادہ سختی سے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی۔ ٹیلر فورس ایکٹ کے تحت فلسطینی اتھارٹی کو امریکی فنڈز کی فراہمی روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا کیونکہ اتھارٹی ایسے خاندانوں کی مالی کفالت کر رہی تھی جو اسرائیل کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں میں شہید یا زخمی ہوئے تھے۔

ٹیلر فورس ایکٹ کے تحت اسرائیل کے خلاف کارروائیوں میں شریک افراد کی کفالت کر کے فلسطینی اتھارٹی امریکہ کے بقول ’دہشت گردی میں زر تلافی ادا کرنے کی موجب قرار پائی۔‘ غزہ پر جنگ مسلط کرنے کے خلاف ’یوم غضب‘ منانے کی تائید کر کے فلسطینی اتھارٹی نے اسی امریکی قانون کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا۔

غزہ کی بحالی کے لیے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مل کر کام کرنا دراصل امن کی جانب ایک غیر منطقی پیش رفت خیال کی جاتی ہے۔ آج غزہ اور مغربی کنارے دونوں میں بسنے والے فلسطینیوں کو اپنی فلاح و بہبود کے لیے ایک نئے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جو فلسطینی اتھارٹی کی کرپشن اور حماس پر عائد عالمی جکڑ بندیوں سے آزاد ہو۔

اقوام متحدہ ماضی میں حماس پر انسانی امداد کے لیے آنے والی رقوم کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا الزام عائد کر چکا ہے۔ حماس، غزہ میں درآمد کی جانے والی اشیا پر اسرائیل کی جانب سے کسٹم ڈیوٹی کے نفاذ پر معترض رہا ہے کیونکہ اسرائیل یہ محصولات فلسطینی اتھارٹی کو ادا کرتا ہے جو بعد ازاں اسے فلسطینیوں کی فلاح کے منصوبوں پر خرچ کرنے کے لیے اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

ایک طرف تو فلسطینی اتھارٹی مسلسل فنڈز کی کمی کا رونا روتی ہے لیکن اس کے باوجود فلسطینی صدر محمود عباس نے 32 ملین ڈالر مالیت کا نیا مکان اور 50 ملین ڈالر کا نیا جیٹ طیارہ خرید لیا یہ رقم کہاں سے آئی؟ لیکن 85 سالہ فلسطینی صدر اس کا جواب آج تک دینے سے قاصر چلے آ رہے ہیں۔

فلسطینی اتھارٹی کے صدارتی انتخاب کے ایک متوقع امیدوار محمد عارف اتھارٹی کی غضب ناک کرپشن کہانی بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں ’کہ فلسطینی رہنما آزادی اور امن نہیں چاہتے۔ عوام جس جنگ اور تباہی میں مبتلا ہیں، فلسطینی قیادت کو اس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کو ارسال کردہ رقم سے مطلق العنان [آمر] رہنما کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے جو صرف اپنے لوگوں کو بھوکا رکھ کر ان کے نام پر رقم بٹورنا جانتا ہے۔‘

فلسطینی اتھارٹی کی اخلاقی مفلسی کے باوجود امریکی دفتر خارجہ کے ایک اعلی عہدیدار نے رواں ہفتے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ’واشنگٹن، اقوام متحدہ اور فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنائے گا کہ غزہ کی ترقی اور بحالی کے لیے آنے والی رقوم بہتر انداز میں استعمال ہو سکے۔‘

فلسطینیوں کی حقیقی امداد کی خواہاں غیر ملکی حکومتوں کو یہ بات یقینی بنانی چاہیے کہ امدادی رقوم ایمانداری سے وہیں خرچ کی جائے، جہاں کے لیے بھیجی گئی ہے۔ موجود صورت حال اس امر کا تقاضہ کر رہی ہے کہ ایک ایسا نیٹ ورک تیار کیا جائے جو امداد کو اصل جگہ پر خرچ کرنے میں مدد دے۔

فلسطینی معاشرے کی بہبود پر اپنی توجہ مرتکز رکھنے والی ایک نئی انجمن کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت ہے کہ جس میں عرب ممالک، امریکہ اور ہم خیال یورپی ممالک اپنی رقوم بھیج سکیں۔

اگرچہ ایسی تنظیم کی تشکیل جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گی خاص طور پر اس میں کام کرنے والوں کا تقرر ہمیشہ کی طرح ایک بڑا چیلنج رہے گا۔ غزہ میں ایسی تنظیم کا ڈھانچہ تیار کرنا یقینا اور بھی زیادہ مشکل ہو گا، تاہم کامیابی کی صورت میں اس کا فائدہ بھی سب سے زیادہ غزہ کے عوام کو ہی پہنچے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس طرح یہ فنڈ شہری بہبود کے حقیقی مصرف تک پہنچ سکیں گے اور اس میں کسی تیسرے فریق کے چینل پر اعتماد سے بھی  استثنیٰ مل جائے گا۔ متعدد عرب ملکوں نے فلسطینی اتھارٹی کی عمومی نااہلی کے پیش نظر اسے دی جانے والی امداد سے وقتی طور پر دست کشی اختیار کر لی تھی۔

اسرائیل کے ساتھ نئے سفارتی تعلقات بالخصوص معاہدات ابراہیمی پر دستخط اسی ناراضی کا ایک پہلو بیان کرتے ہیں۔

اس نوعیت کے ڈھانچے کی تشکیل سے امریکہ کو اپنے ہی قانون ٹیلر فورس ایکٹ کی خلاف ورزی سے بچتے ہوئے فلسطینیوں کی مدد کا نیا چینل میسر آئے گا۔ اس وقت فلسطینی اتھارٹی اپنے بجٹ کا تقریبا سات فیصد اسرائیل کے خلاف سرگرمیوں میں ہلاک یا زخمی ہونے والوں کی بہبود پر خرچ کر رہی ہے۔

نئی انجمن کی موجودگی میں فلسطینیوں کی بہبود کے فنڈز  فلسطینی اتھارٹی کے ہاتھ نہیں لگیں گے۔ اس سے کم تر کوئی بھی فارمولا امریکی ٹیکس ادا کرنے والوں کی رقوم کو مستحق افراد تک پہنچانے میں معاون نہیں ہو سکتا۔

فلسطینیوں کی امداد کے خواہاں حلقوں کو سمجھنا چاہیے کہ فلسطین کے مروجہ ادارے بالخصوص فلسطینی اتھارٹی کرپشن کی وجہ سے تباہی کی راہ پر گامزن ہیں۔ اپنی ناک سے آگے انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ فلسطینی اتھارٹی کو امدادی چینل سے نکالے بغیر اس کا کوئی حل ممکن نہیں ہے۔

محمود عباس 2004 سے تنظیم آزادی فلسطین کے چیئرمین اور 2005 سے فلسطینی اتھارٹی کے صدر چلے آ رہے ہیں۔ انہوں نے اس مدت کے دوران کوئی قابل قدر کارنامہ انجام نہیں دیا۔

مشرق وسطی میں قیام امن کے لیے اپنی صلاحتیں اور توانائیاں صرف کرنے والوں کو نئے نعرے متعارف کرانا ہوں گے، کرپٹ فلسطینی اتھارٹی کو تبدیل کرنا ہو گا۔ اب اس نے بدعنوانی کا پردہ چاک کرنے والے اپنے بے باک مخالفین کو راستے سے ہٹانے کے لیے قتل کرنا شروع کر دیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ