نائجیریا میں سکول طلبہ اغوا: ’ہمارے بچے واپس لانے میں ہماری مدد کریں‘

نائجیریا میں مسلح افراد نے ایک بورڈنگ سکول سے 140 سے زائد بچے اغوا کر لیے ہیں جن کے والدین ان کی رہائی کے لیے مدد مانگ رہے ہیں۔

افریقی ملک نائجیریا میں ایک بار پھر سکول کے طلبہ کو نشانہ بناتے ہوئے مسلح افراد نے ایک بورڈنگ سکول سے 140 سے زائد بچوں کو اغوا کر لیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہتھیاروں سے لیس گروہ شمال مغربی اور وسطی نائجیریا میں طویل عرصے سے لوٹ مار، مویشی چوری کرنے اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث رہے ہیں، لیکن رواں سال کے آغاز سے انہوں نے سکولوں اور کالجوں کو تیزی سے نشانہ بنایا ہے۔

پولیس نے بتایا ہے کہ پیر کو علی الصبح نائجیریا کی ریاست کڈونا کے بیتھل بپٹسٹ ہائی سکول میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے گارڈ کو زیر کیا اور سکول میں داخل ہوگئے۔

پولیس کے مطابق مسلح افراد سکول میں مقیم 150 سے زائد طلبہ کو یرغمال بنانے کے بعد بیشتر کو اغوا کر کے لے گئے۔

سکول کے استاد ایمانوئل پال نے بتایا: ’ہمیں ابھی تک نہیں معلوم کہ طلبہ کو کہاں لے جایا گیا ہے۔‘

دوسری جانب پریشان حال والدین سکول سے لاپتہ ہونے والے بچوں کے بارے میں خبر کے منتظر ہیں۔

اغوا کیے جانے والے ایک بچے کے والد مصطفیٰ کمبے نے کہا: ’اس حکومت نے کڈونا کے عوام کو مایوس کر دیا ہے۔ ہم اس وقت تک احتجاج کریں گے جب تک ہمارے بچوں کو واپس نہیں لایا جاتا۔‘

ایک مظاہرے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’ہم بین الاقوامی برادری سمیت ہر اس شخص سے درخواست کرتے ہیں جس کی بدولت ہمارا مسئلہ حل ہو سکے کہ ہماری مدد کو آئیں۔ ہمارے پاس اب کوئی سہارا نہیں ہے۔‘

ریاست کڈونا کی پولیس کے ترجمان محمد جلیگے نے حملے کی تصدیق کی ہے لیکن اغوا کیے جانے والے طلبہ کی تعداد بتانے سے قاصر رہے۔

ان کا کہنا تھا: ’پولیس کی ٹیمیں اغوا کاروں کے پیچھے گئی ہیں اور بچوں کو بازیاب کروانی کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

پولیس کے مطابق اس نے 26 افراد کو بچا لیا ہے، جن میں ایک ٹیچر بھی شامل ہیں۔

نائجیریا میں دسمبر سے لے کر اب تک ایک ہزار طلبہ کو اغوا کیا جا چکا ہے، جن میں سے زیادہ تر کو مقامی حکام کے ساتھ مذاکرات کے بعد رہا کر دیا گیا ہے جبکہ اب بھی چند قید میں ہیں۔

صدر محمدو بوحاری نے پیر کو اپنے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں فوج، پولیس اور خفیہ اداروں کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ اغوا کیے جانے والے تمام بچوں کی بحفاظت رہائی کو یقینی بنائیں۔

گینگ اکثر دیہی سکولوں اور کالجوں کو نشانہ بناتے ہیں جہاں طلبہ ہاسٹلز میں رہتے ہیں اور سکیورٹی کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ تاوان کے مطالبے کے لیے آسانی سے اپنے متاثرین کو جنگل میں موجود خفیہ ٹھکانے منتقل کر پاتے ہیں۔

محکمہ تعلیم کے حکام کے ایک خط کے مطابق کڈونا کی ریاستی حکومت نے پیر کو ان 13 سکولوں کو فوری طور پر بند کرنے کا حکم دیا جہاں ممکنہ طور پر حملوں کا خطرہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس قسم کی بڑے پیمانے پر اغوا کی واردات نے 2014 میں عالمی سطح پر شہہ سرخیوں میں جگہ بنائی تھی جب شدت پسند گروپ بوکو حرام نے ریاست بورنو کے شمال مشرقی علاقے چبوک کے ایک دیہی سکول سے تین سو طالبات کو اغوا کر لیا تھا۔

بیتھل بپٹسٹ ہائی سکول ایک مخلوط کالج ہے، جو بپٹسٹ چرچ کے ذریعے ریاستی دارالحکومت کڈونا کے باہر ضلعے چکون کے مرامارا گاؤں میں قائم کیا گیا ہے۔

کڈونا کے گورنر ناصر احمد الروفائی نے ماضی میں تاوان دینے کے امکان کو مسترد کیا تھا۔

پولیس نے بتایا ہے کہ پیر کے روز سکول کے بچوں کو اغوا کرنے کی واردات سے چند گھنٹوں قبل مسلح افراد نے کڈونا ہیلتھ سینٹر کے آٹھ طبی کارکنان کو اغوا کیا تھا۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ سے وابستہ تجزیہ کار نمادی اوباسی نے کہا:  ’سکولوں پر حملوں کے اعدادوشمار کو دیکھیں تو کڈونا کا دیگر ریاستوں کے مقابلے میں یقیناً سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ ریاست میں سکولوں کو مستقل نشانہ بنانے سے پتہ چلتا ہے کہ مسلح گروہ ریاستی حکومت کے مجرم گروہوں کو تاوان نہ دینے کے عزم کو متزلزل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

سابق جرنل  رہنے والے صدر بوحاری  پہلی مرتبہ 2015 میں منتخب ہوئے تھے اور انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اغوا اور جرائم پیشہ گروہوں کی لعنت کو ختم کریں گے لیکن بڑے پیمانے پر اغوا کی وارداتیں ان کی حکومت کو درپیش کئی چیلینجز میں سے ایک ہیں۔

ان کی سکیورٹی فورسز شمال مشرقی علاقے میں عسکریت پسندی سے 2009 سے نمٹنے میں مصروف ہیں۔ اس تنازعے میں 40 ہزار افراد ہلاک اور 20 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں۔

جرائم پیشہ گروہ روگو کے جنگل میں قائم کیمپس سے کارروائیاں کرتے ہیں۔ یہ جنگل زمفارا، کٹسینا اور کڈونا کی ریاستوں اور پڑوسی ملک نائجر کے درمیان واقع ہے۔

نائجیریا کی فضائیہ نے ماضی میں ڈاکوؤں کے کیمپس پر حملے کیے ہیں جبکہ چند شمالی ریاستوں نے انہیں مذاکرات کے ذریعے غیر مسلح ہونے کی پیشکش کرنے اور اس کے بدلے عام معافی دینے کی تجویز بھی دی ہے۔

لیکن اس قسم کی کوششیں اور مقامی سطح پر مذاکرات بوحاری کی حکومت کی مخالفت کی بنیاد پر بے نتیجہ رہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ ڈاکوؤں کو نوازنے کے برے نتائج برآمد ہوں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا