پاکستان کی نئی کشمیر پالیسی؟

پاکستان نے سن 90 میں مغربی ملکوں میں کشمیر سے متعلق جو بعض اہم ادارے قائم کر دیئے تھے جن کی نہ صرف اب مالی امداد روک دی گئی ہے بلکہ بیشتر کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔

یکم جون 2021 کی اس تصویر میں سری نگر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے اہلکار سڑک پر ایک ناکے پر کھڑے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں


برلن میں چند روز پہلے کشمیر کی موجودہ صورت حال پر ایک کانفرنس زوم پر منعقد ہوئی، جس میں جنوب ایشیائی امور کے محققین اور دانشور مدعو تھے۔

کانفرنس میں یہ بات سامنے آئی کہ چند برسوں سے پاکستان نے اپنی کشمیر پالیسی کو ایک نئی سمت دی ہے جس میں سفارتی سطح پر عالمی برادری کو اپنے موقف سے آگاہ کرنا، کشمیر میں بھارتی جارحیت کے شواہد اور ثبوت پیش کرنا اور کشمیریوں کی پرامن جدوجہد کی حمایت کے لیے معتبر ماہرین سیاسیات کی خدمات حاصل کرنا شامل ہے۔

سویڈین کے ایک دانشور نے پاکستان کی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’مسلح تحریک کے بیشتر اڈے اور ٹھکانے (پاکستان کے زیر انتظام) کشمیر اور اس کے اردگرد بند کر دیئے گئے ہیں، سرحدی دراندازی پر سختی سے روک لگائی گئی ہے اور بات چیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی پاکستانی پیش کش کا بھارت نے ابھی تک مثبت جواب نہیں دیا ہے حالانکہ شملہ معاہدے کے تحت بھارت نے بات چیت سے مسائل حل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔‘

جموں و کشمیر میں آزادی کی تحریک گذشتہ 70 برسوں سے جاری ہے جس نے سن 90 کی دہائی میں مسلح تحریک کا رخ اختیار کیا۔ بھارت نے پاکستان پر کشمیری نوجوانوں کو اسلحہ اور تربیت دینے کا الزام عائد کیا جبکہ لبریشن فرنٹ کے قائد محمد یاسین ملک سمیت بیشتر کشمیری جنگجوؤں نے ازخود مسلح تحریک شروع کرنے کا کئی بار اعتراف کیا ہے۔

کانفرنس کے دوران یہ بات دہرائی گئی کہ پاکستان کی سفارتی سرگرمیاں کسی حد تک بار آور ثابت ہو رہی ہیں اور کئی مغربی ممالک پاکستانی موقف کی تائید کرنے لگے ہیں حالانکہ یہ ممالک پہلے بھارت کی کشمیر پالیسی کے حامی رہے ہیں۔

بیشتر دانشور پانچ اگست 2019 کے کشمیر کی اندرونی خودمختاری ہٹانے کے بھارتی فیصلے پر تنقید کرتے رہے بلکہ ایک محقق نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ہٹا کر اپنے آئین اور اپنی جمہوریت کا گلہ گھونٹا ہے جس کو کسی بھی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے مگر مودی کے دور میں بھارتی عدلیہ کی روح بھی مجروح دکھائی دے رہی ہے۔‘

اگرچہ کانفرنس میں اکثر دانشور بھارت کے حامی لگ رہے تھے لیکن کسانوں کی حالت زار، مذہبی جنونیت ابھارنے اور کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی شدید پامالیوں پر اتفاق رات سے بھارتی رویئے پر تشویش ظاہر کی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی کہ پاکستان نے سن 90 میں مغربی ملکوں میں کشمیر سے متعلق جو بعض اہم ادارے قائم کر دیئے تھے جن کی نہ صرف اب مالی امداد روک دی گئی ہے بلکہ بیشتر کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ مغربی ملکوں نے اس اقدام کو محسوس کیا ہے جس کی بدولت کشمیر کی پر امن جدوجہد کے لیے عالمی برادری کی سفارتی حمایت حاصل کرنے میں پیش رفت نظر آ رہی ہے۔

میں نے جب پاکستان کے سابق سفیر اور مصنف عبد الباسط سے پوچھا کہ کیا واقعی پاکستان کی کشمیر پالیسی میں تبدیلی آئی ہے جس کا عالمی برادری پر مثبت اثر نظر آ رہا ہے تو انہوں نے اس کو بھارتی لابی سے مشابہہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’میں سرے سے اس موقف کو خرافات سمجھتا ہوں۔ یہ کشمیریوں کی اپنی تحریک آزادی کو زائل کرنے کی ایک اور سازش ہے۔ کشمیر کی سفارت کاری میں ہماری ناکامی کی وجہ ہمارا خوف، ہماری غیر ہم آہنگی اور ہماری وضاحت کا فقدان رہا ہے، سفارت کاری حد سے زیادہ اور غیر ضروری بیان بازی یا انفرادی واقعات کو جوڑنے کو حقیر سمجھتی ہے۔ سفارت کاری ایک مسلسل عمل ہے نہ کہ ایک واقعہ۔‘

مگر کشمیر امور کے ماہر اور سینیئر صحافی اعجاز حیدر کہتے ہیں کہ ’5 اگست 2019 کے بعد پاکستان کی کشمیر پالیسی تین نکاتی بن گئی ہے، پہلا یہ کہ جب تک پانچ اگست کا فیصلہ واپس لے کر سازگار ماحول نہیں بنایا جاتا اس وقت تک بھارت کے ساتھ بات چیت نہیں ہوسکتی کیونکہ اس فیصلے سے نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی معاہدوں کی بھی۔‘

دوسرا بات چیت کا محور صرف کشمیر کے مستقبل اور کشمیریوں کے حصول حقوق پر ہونا چاہیے اور تیسرا کشمیریوں کو اس بات چیت میں شامل کرنا ہوگا کیونکہ یہ زمین کا جھگڑا نہیں بلکہ کشمیریوں کے سیاسی حقوق پر شب خون مارنے کی مسلسل کوشش رہی ہے۔ اب عالمی برادری اس پالیسی کو منوانے پر بھارت پر کتنا دباؤ ڈالتی ہے، جو انسانی حقوق اور جمہوری قدروں کا دم بھرتی ہے، یہ ابھی دیکھنا باقی ہے لیکن گذشتہ دو سال میں پاکستان کے موقف کو کسی حد تک عالمی حمایت حاصل ہوچکی ہے۔‘

اندرون کشمیر بھی بعض عوامی حلقوں میں پاکستان کی نئی پالیسی پر اطمینان نظر آ رہا ہے مگر اس بات کو شدت سے محسوس کیا جاتا ہے کہ پالیسی میں تسلسل اور ہم آہنگی نہیں رہتی بلکہ منفرد واقعات تک محدود رکھنے کا عمل عوام میں پھر مایوسی کا موجب بن جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ