معلومات تک رسائی کا قانون، جسے کوئی ادارہ ماننے کو تیار نہیں

کیا یہ لطیفہ گردانا جائے کہ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے پاکستان انفارمیشن کمیشن کو ایک خط کے ذریعے مطلع کیا ہے کہ سینیٹ اس قانون سے مبرا ہے۔

دنیا کے کئی ممالک کی طرح پاکستان نے بھی پبلک باڈیز کے بارے میں شہریوں کو ہر قسم کی معلومات فراہم کرنے کے لیے 2017 میں  قانون بنایا تھا(فوٹو: پکسا بے)

’قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں کمزور تو پھنس جاتے ہیں مگر طاقتور اس کو توڑ کر گزر جاتے ہیں۔‘

یہ قول چھٹی صدی قبل مسیح کے ایک شہزادے انکارسس سے منسوب ہے مگر یہ پاکستان میں ہمیشہ صادق آتا ہے۔ 2017 میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے ایک قانون بنایا جسے ’معلومات تک رسائی کے حق‘ کا نام دیا گیا جو وفاقی حکومت کی تمام پبلک باڈیز پر نافذ العمل ہے، جس کے تحت پاکستان کا کوئی بھی شہری درخواست دے کر متعلقہ اداروں سے براہ راست کوئی بھی معلومات لے سکتا ہے۔

لیکن کیا یہ لطیفہ گردانا جائے کہ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے پاکستان انفارمیشن کمیشن کو ایک خط کے ذریعے مطلع کیا ہے کہ سینیٹ اس قانون سے مبرا ہے۔ گویا جس ادارے نے قانون بنایا وہ خود ہی کہتا ہے کہ وہ اس قانون سے بالاتر ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک درخواست گزار نے چھ مئی 2019 کو پاکستان انفارمیشن کمیشن کو خط لکھا کہ اس نے 10 اپریل 2019 کو سیکریٹری سینیٹ کو خط لکھ کر پوچھا کہ وہ سینیٹ کے تمام ملازمین کی تفصیلات فراہم کریں جن میں یہ درج ہو کہ ان کی تنخواہ اور مراعات، خالی آسامیوں اور ڈیلی ویجز ملازمین کی تعداد کتنی ہے۔

جب سیکریٹری صاحب نے دس دنوں کے اندر جواب نہیں دیا تو سائل نے پاکستان انفارمیشن کمیشن میں اپیل کر دی۔ کمیشن نے سینیٹ کو دو بار خط لکھ کر پوچھا کہ قانون کی رو سے وہ یہ جوابات دینے کے پابند ہیں اس لیے وہ وضاحت کریں یا جواب دیں۔ لیکن جب کوئی جواب نہیں آیا تو کمیشن نے سینیٹ کے نمائندے کو خط لکھ کر 22 اکتوبر 2019 کو سماعت کے لیے طلب کر لیا۔ لیکن چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کمیشن کو پھر ایک تفصیلی خط لکھ دیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ ایک حساس ادارہ ہے جس کی معلومات افشا نہیں کی جا سکتیں۔ اس کے ساتھ ہی سینیٹ کے پبلک انفارمیشن آفیسر نے کمیشن کو تحریر کیا کہ قواعد کے تحت چیئرمین سینیٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ سینیٹ کا کچھ یا تمام ریکارڈ کلاسیفائیڈ قرار دے سکیں۔ اس لیے چیئرمین سینیٹ نے حکم دیا ہے کہ سینیٹ کے ملازمین کی معلومات بھی کلاسیفائیڈ کے زمرے میں ہی آتی ہیں۔

یہ پاکستان میں معلومات تک رسائی کے قانون کا حال ہے کہ سینیٹ کے چیئرمین اپنے ملازمین کی تعداد اور وہاں خالی آسامیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کو بھی خفیہ رکھنا چاہتے ہیں۔ جب پارلیمنٹ کا اپنے ہی بنائے ہوئے قانون پر عمل در آمد کا یہ حال ہو گا تو پھر باقی اداروں کو اس قانون کا پابند کیسے کیا جائے گا؟

معلومات تک رسائی کا قانون ہے کیا؟

دنیا کے کئی ممالک کی طرح پاکستان نے بھی پبلک باڈیز کے بارے میں شہریوں کو ہر قسم کی معلومات فراہم کرنے کے لیے 2017 میں یہ قانون بنایا تھا۔ اس کے تحت کوئی بھی شہری کسی بھی پبلک باڈی کے بارے میں کوئی سوال ہو تو وہ متعلقہ ادارے سے ایک درخواست کے ذریعے پوچھ سکے گا۔ اگر اسے دس دن کے اندر جواب نہیں دیا جاتا تو وہ 30 دن کے اندر پاکستان انفارمیشن کمیشن میں اپیل دائر کر سکتا ہے جس پر کمیشن 60 دن کے اندر فیصلہ کرنے کا پابند ہے۔

اس قانون کے تحت کچھ معلومات کو استثنیٰ حاصل ہے جن میں ایسی معلومات شامل ہیں جو پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات کو متاثر کریں۔ یا پھر ایسی معلومات جو کسی جرم کا باعث بنتی ہوں یا کسی انکوائری کی تفتیش کو متاثر کرتی ہوں۔ یہ معلومات اگر کسی مخبر کی نشاندہی کرتی ہوں۔ ملک کی سکیورٹی یا کسی کی نجی معلومات کو بھی استثنیٰ دیا گیا ہے۔ اسی طرح ایسی معاشی معلومات جن کے قبل از وقت افشا سے نقصان کا خدشہ ہو۔ پاکستان کا دفاع، مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اثر پذیری کو نقصان کا خدشہ ہو تو وہ معلومات بھی نہیں دی جا سکتیں۔ یا پھر ایسی معلومات جو کسی فرد کی آزادی، صحت اور تحفظ کو خطرے میں ڈالتی ہوں۔ زیر سماعت کیس متاثر ہونے کا خطرہ ہو۔ تاہم یہ تمام معلومات عرصہ 20 سال کے بعد پبلک کی جا سکتی ہیں۔

قانون پر عمل در آمد میں چیلنج کیا ہیں؟

 پاکستان انفارمیشن کمیشن کے قیام یعنی سات نومبر 2018 سے لے کر 30 جون 2021 تک کمیشن کو 1174 اپیلیں موصول ہوئیں۔ واضح رہے کہ اپیل تب کی جاتی ہے جب متعلقہ محکمہ یا ادارہ کسی شہری کو جواب نہیں دیتے۔ ان میں سے 522 اپیلیں حل ہو گئیں یعنی متعلقہ محکموں نے انفارمیشن کمیشن کی مداخلت پر جواب دے دیے۔ 266 پر عمل در آمد کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔ کمیشن نے لوگوں کو ویب سائٹ پر اب ای اپیلوں کی سہولت بھی دے دی ہے جس کے تحت 120 اپیلیں کی گئی ہیں جن میں سے 68 حل ہو چکی ہیں جبکہ 39 زیر سماعت ہیں اور 13 پر عمل در آمد ہو رہا ہے۔

سب سے زیادہ اپیلیں وزارت دفاع سے متعلق موصول ہوئی ہیں جن کی تعداد 38 ہے۔ دوسرے نمبر پر وزارت قانون و انصاف ہے جن کی تعداد 36 ہے۔ وزارت اطلاعات 26 کے ساتھ تیسرے، سپریم کورٹ 24 کے ساتھ چوتھے، سی ڈی اے 22 کے ساتھ پانچویں، الیکشن کمیشن، ایف آئی اے اور ایف بی آر 20، 20 کے ساتھ چھٹے، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن 18 کے ساتھ ساتویں اور وزارتِ خارجہ 11 اپیلوں کے ساتھ آٹھویں نمبر پر ہیں۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدلیہ اور وزارت قانون جیسے ادارے بھی لوگوں کو معلومات کی رسائی کے قانون کے راستےمیں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے جب پاکستان انفارمیشن کمیشن کے چیف کمشنر اور سابق وفاقی سیکریٹری وزارت اطلاعات اعظم خان سے کمیشن کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہمارا اصل چیلنج سسٹم سے 1923 کے آفیشل سیکریٹریٹ ایکٹ کو نکالنا ہے۔ بیوروکریسی سمجھتی ہے کہ تمام سرکاری معلومات خفیہ ہیں۔ معلومات تک رسائی کا قانون دنیا کے 132 ممالک میں رائج ہے اور اس کی ابتدا سویڈن میں 1766 میں ہوئی تھی۔ یعنی جس قانون کو ہم آج بھی ماننے کو تیار نہیں سویڈن میں وہ 1766 سے نافذ العمل ہے۔ ہمارے قانون کی بنیادیں فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ 2002 میں ملتی ہیں جب ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کو انصاف تک رسائی کے تحت چار کروڑ ڈالر یہ قانون بنانے کی شرط کے ساتھ دیے چنانچہ ہم نے راتوں رات آرڈیننس نافذ کر دیا۔ 2010 میں سینیٹ کی انفارمیشن کمیٹی نے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے ذریعے اسے قانون کی شکل دی تاہم کابینہ کو سمری جاتے جاتے سات سال لگ گئے۔

اکتوبر 2017 میں یہ قانون پارلیمنٹ سے پاس ہو گیا۔ قانون کے تحت چھ ماہ کے اندر کمیشن قائم کرنا تھا مگر 13 ماہ کے بعد کمیشن بن تو گیا مگر آج بھی کمیشن کا یہ حال ہے کہ اس کے پاس اپنی کوئی گاڑی نہیں صرف ایک موٹر سائیکل ہے۔ کمیشن کو فعال کرنے کے لیے ہم نے 32 پوسٹیں تخلیق کیں مگر وزارت خزانہ نے صرف 13 کی منظوری دی۔ اس طرح ہمیں جہاں لوگوں کو معلومات تک رسائی کو یقینی بنانے کا چیلنج درپیش ہے، وہاں اپنے سسٹم کو فعال رکھنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ قانون بن گیا ہے مگر جب کوئی شہری اس قانون کے تحت سپریم کورٹ کے جج کی تنخواہ اور مراعات پوچھتا ہے تو اسے یہ معلومات فراہم نہیں کی جاتیں بلکہ جواب دیا جاتا ہے یہ سیکریٹریٹ ہے حالانکہ اس قانون کے تحت تمام وفاقی ادارے یہ معلومات اپنی ویب سائٹ پر آویزاں کرنے کے پابند ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح وزارت قانون نے ہمیں معلومات فراہم نہ کرنے کے لیے 1993 کے آفیشل میمورنڈم کا حوالہ دے دیا، جس کے تحت 18 وزارتیں کلاسیفائیڈ ہیں۔ ہم نے انہیں بتایا کہ 2017 کے قانون کو 1993 کے قانون پر سبقت حاصل ہے۔

کوئی شہری سول ایشن اتھارٹی سے اس کے خاکروب کی تنخواہ پوچھتا ہے تو وہ بھی اسے خفیہ قرار دے دیتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں ایک شہری نے صحافی مطیع اللہ جان کی ویڈیو فوٹیج وزارت داخلہ سے مانگی تو انہوں نے انکار کر دیا۔ جب ہمارے پاس اپیل آئی تو ہم نے وزارت داخلہ کو لکھا کہ کرائم سین کی فوٹیج دینا آپ کی قانونی ذمہ داری ہے، چنانچہ ہماری اپیل پر وزارت داخلہ نے یہ فوٹیج فراہم کی۔

اعظم خان نے کہا کہ ابھی اس قانون کے بارے میں عوامی شعور نہیں ہے۔ بھارت میں انفارمیشن کمیشن کے پاس پانچ لاکھ اپیلیں آ چکی ہیں۔ دہلی میں غیر معیاری سڑک بن رہی تھی ایک شہری نے کمیشن کو لکھا کہ ٹھیکیدار چار انچ کی کنکریٹ نہیں ڈال رہا، جس سے سڑک کی تعمیر غیر معیاری ہو رہی ہے۔ کمیشن نے تحقیق کی تو واقعی سڑک غیر معیاری بن رہی تھی۔ کمیشن کی مداخلت پر ٹھیکیدار کو چار انچ کنکریٹ ڈالنی پڑی۔ ہم یہی شعور یہاں لوگوں کو دینا چاہتے ہیں کہ وہ کوئی بھی غیر قانونی کام ہوتا دیکھیں توپبلک باڈیز سے اس کی باز پرس کریں۔

ڈاکٹر اے ایچ نیئر اسلام آباد کے رہائشی ہیں ان کے سیکٹر جی 14 میں پاکستان ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کی جانب سے پانی کی سپلائی غیر تسلی بخش تھی۔ انہوں نے فاؤنڈیشن کو ایکٹ کی رو سے تحریر کیا کہ وہ پانی سپلائی کرنے والے ٹھیکیداروں کی تفصیلات فراہم کرے، یعنی کن شرائط پر انہیں ٹھیکے دیے گئے ہیں؟

شروع میں فاؤنڈیشن نے پس و پیش سے کام لیا لیکن جب انفارمیشن کمیشن نے جواب دہی کی تو انہیں یہ سب کچھ منظر عام پر لانا پڑا جس کے بعد پتہ چلا کہ ٹھیکدار اپنے لکھے ہوئے معاہدے پر عمل نہیں کر رہا۔ اس کے بعد سے سیکٹر میں پانی کی سپلائی کا نظام بہتر ہو گیا ہے۔ اسی طرح وزراتِ قومی ورثہ نہ صرف اپنے ڈیلی ویجز مالیوں اور سکیورٹی گارڈوں سے 12، 12 گھنٹے کام لے رہی تھی بلکہ کم سے کم سرکاری اجرت کے معیار سے بھی کم تنخواہیں انہیں ادا کر رہی تھی۔

ایک شہری نے جب سوال پوچھا تو انہیں ساری تفصیلات منظر عام پر لانی پڑیں اور اس کے بعد سے ان کے اوقات کار بھی آٹھ گھنٹے کر دیے گئے ہیں اور ان کی تنخواہیں بھی بڑھا دی گئی ہیں۔

اسی طرح کا معاملہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کراچی ایئر پورٹ پر اپنے خاکروبوں کے ساتھ روا رکھے ہوئے تھی۔ ایک شہری کے سوال پر وہاں بھی صورت حال بہتر ہو گئی ہے۔ ویمن ایکشن فورم نے کمیشن میں ایک اپیل کر رکھی ہے کہ انہوں نے افواج پاکستان کے بریگیڈیئر رینک اور اس سے اوپر کے افسران کی حاضر سروس اور بعد از ریٹائرمنٹ مراعات کے بارے میں وزارت دفاع کو خط لکھ کر پوچھا تو آگے سے جواب آیا کہ ’آپ کون ہوتی ہیں یہ سوال پوچھنے والی؟‘

اسی قسم کا سوال انہوں نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کے بارے میں بھی وزارت قانون سے پوچھا تو بھی کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ یہ اپیلیں اب انفارمیشن کمیشن میں زیر سماعت ہیں، جس کا کہنا ہے کہ یہ معلومات سیکرٹ ایکٹ کے زمرے میں نہیں آتیں اور ٹیکس دہندگان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ جوابدہی کریں بلکہ اس ایکٹ کی رو سے تمام وفاقی محکمے یہ معلومات اپنی ویب سائٹوں پر دینے کے پابند ہیں۔

قانون پر موثر عمل درآمد کے لیے ضروری ہے کہ پبلک باڈیز میں تعینات پبلک انفارمیشن آفیسرز شہریوں کے اس حق کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے سامنے جوابدہی کو یقینی بنائیں اور شہری بھی بلاخوف وخطر اپنے جاننے کے حق کو استعمال کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان