معلومات تک رسائی کا قانون: بلوچستان میں کون سی شق مختلف؟

دوسرے صوبوں کی طرح بالآخر بلوچستان نے بھی معلومات تک رسائی کا قانون منظور کر لیا، لیکن اس کے قانون میں دوسروں صوبوں کے برعکس ایک شق مختلف ہے۔

(سوشل میڈیا)

پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح بالآخر بلوچستان نے بھی معلومات تک رسائی کا بل منظور کر لیا۔

یہ بل گذشتہ دنوں صوبائی اسمبلی کے ایک اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری برائے اطلاعات بشریٰ رند نے پیش کیا تھا۔ اجلاس کے دوران اپوزیشن نے بل کا مسودہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کرنے کی بجائے اجلاس سے پاس کرنے پر اعتراض کیا۔ اجلاس کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان میں اس معاملے پر نوک جھونک بھی ہوئی۔ 

بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی ثنا اللہ بلوچ نے بل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’یہ رسائی نہیں بلکہ معلومات روکنے کا بل ہے، ایسا بل لانا ایوان کی توہین ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ اگر یہ بل عالمی سطح پر دیکھا جائے تو اس سے اسمبلی کی جگ ہنسائی ہوگی۔ 

انہوں نے تجویز دی کہ بل کو واپس لے کر دوبارہ بحث کے بعد منظور کیا جائے۔ بل کے دفاع میں صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی نے اجلاس کو بتایا کہ بل میں معلومات کی فراہمی کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ ’ہر محکمے میں انفارمیشن آفیسر ہوگا، اس کے علاوہ انفارمیشن کمیشن معلومات فراہم نہ کرنے کی صورت میں سزا کا فیصلہ کرے گا۔‘ 

انہوں نے مزید کہا کہ بعض معلومات ایسی ہیں جو اس لیے نہیں دی جا سکتیں کیوں کہ اس سے امن وامان اور ملکی سالمیت کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ ’ہم نے بل کو عین جمہوری روایات کے مطابق بنایا تاکہ ہر شہری معلومات حاصل کرسکے۔‘ 

معلومات تک رسائی کے حوالے سے قانون سازی پورے ملک میں مکمل ہوچکی ہے۔ تاہم مبصرین سمجھتے ہیں کہ قانون سازی کے ساتھ اس پرعمل درآمد کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ 

معلومات تک رسائی کے قوانین پر گہری نگاہ رکھنے والے اور آر ٹی آئی چیمپیئن ایوارڈ جیتنے والے فری لانس صحافی شہزاد یوسف زئی بلوچستان میں اس قانون کے نفاذ کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بل دوسرے صوبوں جیسا ہی ہے لیکن اس میں ایک شق باقی صوبوں سے مختلف ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس شق کے مطابق جس نے معلومات کی درخواست دی ہے، اسے اس کے حصول کی وجہ بھی بتانی ہوگی، یہ شق دوسرے صوبوں اور وفاق کے قانون میں شامل نہیں۔ 

یوسف زئی کے مطابق بلوچستان کے بل میں بھی باقی صوبوں کی طرح معلومات کی فراہمی کا وقت 14 دن ہے جبکہ کمیشن 60 دن میں فیصلہ دے گا۔ 

یوسف زئی سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے قانون میں اس شق پر اعتراض کیا جا سکتا ہے، جس میں شہری کو معلومات کے حصول کی وجہ بتانے کی شرط رکھی گئی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے قانون اور دیگر صوبوں کے قوانین میں بھی ایک چیز جس پر ہمیشہ سے سوال کیا جاتا ہے، وہ استثنیٰ کی شق ہے۔  

’استثنیٰ کی شق کی آڑ میں سرکاری ادارے شہریوں کی معلومات کے حصول کی درخواست رد کردیتے ہیں۔‘ 

یوسف زئی نے معلومات تک رسائی کے قانون کے استعمال کے حوالے سے اپنی ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے گذشتہ سال وزیراعظم ہاؤس کو درخواست دی تھی کہ انہیں وزیراعظم کے زیر استمال ہیلی کاپڑ کے اخراجات اور استعمال کی تفصیلات دی جائیں۔ 

’میں نے نہ صرف وزیراعظم ہاؤس بلکہ خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ سے بھی یہی سوال پوچھا تھا، جس کے جواب میں استثنیٰ کی شق استعمال کرتے ہوئے میری درخواست رد کر دی گئی۔‘ 

ان کے مطابق جب وہ معاملے کو کمیشن میں لے کر گئے تو پنجاب اور خیبر پختونخوا نے معلومات فراہم کر دیں۔ یوسف زئی نے بتایا کہ انہوں نے وزیراعظم ہاؤس سے موجودہ کے علاوہ سابقہ وزرائے اعظم کے اخراجات اور استمعال کی بھی معلومات طلب کی تھیں، تاہم کمیشن کی ہدایات کے باوجود کابینہ ڈویژن معلومات دینے سے انکاری ہے۔ یوسف زئی نے اب معاملے کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ 

وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کمیشن میں ایسے لوگ ہوں جو معلومات کے حوالے سے علم رکھتے ہوں اور معاملات کو سلجھا سکیں تو ان کے  خیال میں ایسی چیزیں رکاوٹ نہیں بن سکتی ہیں۔ 

ماہرین کا ماننا ہے کہ وفاق سمیت صوبائی حکومتوں کے لیے ان قوانین پر عمل درآمد ایک چینلج ہے کیوں کہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اس معاملے میں سست روی اختیار کی جاتی ہے۔ 

یوسف زئی نے بتایا کہ سندھ میں ڈھائی سال بعد کمیشن بنایا گیا، جس کے سربراہ ایم پی ون سکیل میں تقریباً سات لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ہیں لیکن صوبے میں ایک شکایت پر بھی ابھی تک فیصلہ نہیں ہوسکا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خبروں کی تفصیلات کے حوالے سے معلومات کا حصول صحافیوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ بھی اس قانون کا استعمال کم کر رہے ہیں۔ 

یوسف زئی نے بتایا کہ قانون پر اگر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کیا جائے تو شاید اس کا بہتر نتیجہ نکل سکے لیکن دیکھنے میں آیا کہ جب کوئی صحافی کسی خبر کے حوالے سے معلومات طلب کرتا ہے تو اسے وہ معلومات مہینوں بلکہ سالوں میں ملتی ہے۔ ’میرے خیال میں سرکاری معلومات کا تاخیر سے ملنا صحافیوں کو مایوس کر رہا ہے۔ جس کے باعث وہ اسے کم استعمال کر رہے ہیں۔‘ 

صحافی کے لیے معلومات کی بروقت فراہمی ضروری ہوتی ہے، جس میں تاخیر سے اس کی خبر کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے اور ادارے میں اس کی ساکھ کا بھی مسئلہ آتا ہے۔ 

معلومات تک رسائی کے قانون کو پاس کرنے کی جدوجہد کرنے والے سماجی ادارے ایڈ(ایسوسی ایشن انٹیگریٹڈ ڈویلپمنٹ بلوچستان) کے پلیٹ فارم سے گذشتہ پانچ سال سے اس قانون کے لاگو کرنے کے لیے جدوجہد کرنےوالے سماجی کارکن بہرام لہڑی اسے اہم قدم قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں یہ شہریوں کا بنیادی حق ہے، جو آئین میں بھی دیا گیا ہے اور صوبے کو اٹھارویں ترمیم کے تحت اختیارات بھی مل چکے ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ اس بل میں ان کے مطالبوں کے مطابق چیزیں موجود ہیں، جس میں سب سے اہم کمیشن کا قیام تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان