’ہمارے ہوٹل کا ڈیزائن اور قیمتیں جان بوجھ کر متنازع کی گئیں‘

کوئٹہ میں روایتی سوچ کو تبدیل کرکےایک نئی سوچ اور فکر کے ساتھ شروعات کرنےوالا ہوٹل جسے ابتدا سے ہی بجائے پذیرائی کے تنازعات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

کوئٹہ میں روایتی سوچ کو تبدیل کرکےایک نئی سوچ اور فکر کے ساتھ شروعات کرنےوالے اس ہوٹل کو ابتدا سے ہی بجائے پذیرائی کے تنازعات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

شہر کے نواحی علاقے کچلاک میں ایک معروف ہاؤسنگ سکیم کے قریب واقع یہ ہوٹل اس طرز کا بنا ہوا ہے۔ جس میں لوگ کھانے کے ساتھ اس کے ڈیزائن سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔

ہوٹل کے مالکان میں سے ایک، شاہد کاکڑ، کا خیال ہے کہ انہوں نے کوئٹہ میں ہوٹل کے روایتی طریقےکو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس ہوٹل کو بنانے سے قبل میرے  بھائی عابد اور صالح علی نے تجویز دی کہ کچھ نیا اور منفرد کرنا چاہیے۔ جس کے لیے ہم نے یہ منصوبہ بنایا۔

ہوٹل کی وجہ شہرت اس کے عقب میں موجود پانی کےتالاب ہے جہاں بیٹھنے کی جگہ بھی ہے۔

ہوٹل کے متنازع بننے کے بارے میں جب شاہد سے جاننے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں ہر اچھی اور بری چیز کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایاکہ ہم پر پہلا اعتراض یہ کیا گیا کہ ہمارے نرخ مارکیٹ سے بہت زیادہ ہیں، اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی تنقید کی گئی۔ یہ پروپیگنڈا ہماری ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش تھی جو ناکام ہوگئی۔  

دوسری کوشش یہ کی گئی کہ ہمارے ہوٹل  کے سامنے والے حصے کی تصویر کو ایک مقدس مذہبی مقام سے تشبیہ دے کر وائرل کیا گیا جس کا مقصد ہوٹل کو ناکام بنانا تھا۔ ہم نے اس جگہ کا رنگ بھی تبدیل کردیا ہے۔ 

 شاہد نے بتایا کہ بری چیز پر تو ویسے ہی لوگ تنقید کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں اچھی چیز کو بھی اب تنقید کا نشانہ بناتےہیں۔ جس کی وجہ سوشل میڈیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ہوٹل کا منفرد ڈیزائن بنانے کے ساتھ کھانوں پر بھی خصوصی توجہ دی ہے۔

شاہد کے مطابق: ہم نے ہوٹل میں روایتی کھانوں کے ساتھ دیگر ممالک کے کھانے بھی متعارف کرائے ہیں۔ جن میں مصری، عرب اور ترکی کھانے موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے روایتی کھانوں کے حوالے سے بھی ایک نئی ترکیب شروع کی ہے۔ ہمارے ہاں سالم بکرے کو روسٹ کرکے ایک تندور میں پکایا جاتا ہے۔

یہ مہنگا ہوتا ہے اور مخصوص لوگ ہی یہ بنواتے ہیں۔ ہم نے اس کو عام شہری کی دسترس میں لانے کے لیے اسے فی کلو کے حساب سے فراہم کرنا شروع کردیا ہے۔

شاہد اور ان کے بھائیوں نے سرکاری ملازمت چھوڑکر یہ کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی ملازمت کرتا ہے تو وہ صرف ایک گھر کو چلا سکتا ہے۔ جب میرے بھائیوں نے ہوٹل بنانے کا آئیڈیا پیش کیا اور کہا کہ  کچھ ایسا کرنا چاہیے کہ جس سے کام کے ساتھ ساتھ لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بھی بن جائے۔

انہوں نے بتایا کہ اس ہوٹل میں ہمارے ساتھ 150 لوگ کام کرتے ہیں۔ اگر کوئی سوشل میڈیا کے ذریعے کسی پرتنقید کرتا ہے تو اسے اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ اگر یہ ہوٹل بند ہوتا ہے تو اس سے ہمارے ساتھ مزید 150 لوگوں کا روزگار بھی ختم ہوجائے گا۔

ہوٹل کے منتظمین اور مالک خود گاہکوں سے جاکر ان کے شکایت سنتے ہیں، شاید نے بتایا کہ گاہکوں سے رابطہ کرنے اور ان کی شکایات سننے کےباعث ہمیں بہت فائدہ ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’ہم ہوٹل کے لیے خصوصی طور پر کراچی سے ایک ماہر باورچی یہاں لائے ہیں۔ جو ملائشیا، ترکی اور سعودیہ میں کام کرچکا ہے۔ کچن کا سارا عملہ اسی کی نگرانی میں ہے اور اسی نے ہمارے ہوٹل میں باہر ممالک کے کھانے جوآٹھ کے قریب ہیں متعارف کرائے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا