کرونا کا ڈیلٹا اور اپسلون ویرینٹ: کون سا زیادہ تشویش کا باعث

پنجاب میں 70 فیصد کرونا مریض ڈیلٹا ویرینٹ کے ساتھ آ رہے ہیں لیکن طبی ماہرین ایک اور ویرینٹ اپسلون کا بھی ذکر کرتے ہیں۔

3 اگست، 2021 کو کراچی کے ڈرائیو تھرو میں ایک شخص کو چینی ساختہ سائنو فام ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ اس وقت پاکستان بھر میں کرونا کے سب سے زیادہ کیس کراچی میں سامنے آ رہے ہیں (اے ایف پی)

پنجاب حکومت کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق صوبے میں کرونا(کورونا) وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 5.8 فیصد جبکہ لاہور میں یہ شرح 7.5  فیصد ہے۔

محکمہ صحت پنجاب کے مطابق صوبے میں رپورٹ ہونے والے مثبت کیسز میں 70 فیصد مریض کرونا وائرس کے ڈیلٹا ویرینٹ کے ساتھ آ رہے ہیں۔

کرونا ایڈوائزری ٹیم اور کووڈ19 مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں کے مطابق اس وقت لاہور سمیت صوبے بھر میں کرونا  مریضوں میں اضافہ دیکھا جارہا ہے اور ان میں سے زیادہ مریض ڈیلٹا ویرینٹ کا شکار ہیں۔

کچھ جگہوں پر کرونا کے ایک اور ویرینٹ اپسلون کے حوالے سے خبریں گردش میں تھیں کہ ڈیلٹا کے بعد اس ویرینٹ کے شکار مریض بھی رپورٹ ہو رہے ہیں۔

کیا لاہورمیں اپسلون ویرینٹ آچکا ہے؟

کرونا ایڈوائزری کمیٹی کے رکن اور پلمنولوجسٹ ڈاکٹر جاوید حیات نے بتایا کہ ’اپسلون ویرینٹ کے لیے لاہور میں 23 نمونے لیے گئے تھے جن میں سے پانچ میں اپسلون ویرینٹ پایا گیا، جس کے بعد میڈیا پر شور مچ گیا کہ اپسلون ویرینٹ آگیا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ ڈیلٹا ویرینٹ متاثر کر رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اپسلون ویرینٹ گذشتہ برس جولائی میں کیلیفورنیا میں آیا تھا، جس نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو متاثر کیا اور نہ یہ اتنا زیادہ پھیلا، جس کے بعد عالمی ادارہ صحت نے اسے ’ویرینٹ آف کنسرن‘ سے نکال کر ’ویرینٹ اف انٹرسٹ‘ میں ڈال دیا تھا۔ ’لیکن ہم اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں فی الحال اپسلون کا کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔‘

اپسلون اس وقت ویرینٹ آف انٹرسٹ ہے یا ویرینٹ آف کنسرن؟

جنرل ہسپتال لاہور کے کرونا وائرس پر فوکل پرسن اور ہسپتال کے پلمنالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹرمحمد عرفان ملک نے بتایا: ’وائرس کے مختلف ویرینٹس کے بارے میں جاننے کے لیے ہم باہر کی دنیا میں ہونے والی تحقیقات پر انحصار کرتے ہیں۔

’وہ بتاتے ہیں کہ فلاں ویرینٹ اب ویرینٹ آف انٹرسٹ سے ویرینٹ آف کنسرن میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ویرینٹ آف انٹرسٹ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسا ویرینٹ کسی ایسے علاقے میں دیکھ رہے ہیں جس کے متعدی ہونے کی شرح اور علامات سب سے پہلے آنے والے ایلفا ویرینٹ سے مختلف ہیں۔

’اس صورتحال میں سی ڈی سی اور عالمی ادارہ صحت اس ویرینٹ کو ویرینٹ آف انٹرسٹ کے طور پر لیتے ہیں۔ اس کے بعد جب مختلف ٹیسٹوں کے بعد یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ویرینٹ واقعی سب سے پہلے والے ویرینٹ سے مختلف ہے اور اس میں لوگوں کو بیمار یا متاثر کرنے اور پھیلنے کی صلاحیت زیادہ ہے تو پھر اس ویرینٹ کو ویرینٹ آف کنسرن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘

ڈاکٹر عرفان کہتے ہیں کہ ڈیلٹا اور اپسلون دونوں ویرینٹ آف انٹرسٹ سے ویرینٹ آف کنسرن میں آچکے ہیں۔ ’اس حوالے سے ہم بھی ریڈ الرٹ پر ہیں کہ اگر ہمارے ہمسایہ ممالک میں یہ ویرنٹ آچکا ہے تو ہمارے ہاں بھی اس کے آنے کے امکان زیادہ ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہم مختلف ہسپتالوں سے نمونے نیشنل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ( این آئی ایچ) اسلام آباد بھجوا دیتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس وقت پنجاب میں ڈیلٹا ویرینٹ کا خدشہ کافی زیادہ ہے، اپسلون بھی موجود ہے لیکن ہمیں اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس ویرینٹ کی انفیکٹیویٹی سب سے پہلے ویرینٹ ایلفا سے صرف 20 فیصد زیادہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اچھی بات یہ ہے کہ اپسلون ویرینٹ کو حالیہ عالمی سطح پر کیے جانے والے تجربات و تحقیقات کے بعد ویرینٹ آف کنسرن کے زمرے سے نکال دیا گیا ہے۔

’اس ویرینٹ سے متاثرہ مریضوں کے نمبر دنیا بھر میں کم ہو گئے ہیں لیکن ڈیلٹا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔‘

ڈاکٹر عرفان نے انکشاف کیا کہ پنجاب میں کرونا کے جتنے مریض آرہے ہیں ان میں 70 فیصد مریض ڈیلٹا ویرینٹ کے ساتھ آرہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ڈیلٹا کو بیڈ فلو کا نام بھی دیا گیا ہے کیونکہ اس ویرینٹ سے متاثرہ مریضوں میں فلو کی علامات آتی ہیں جس میں بہتی ناک اور گیسٹرو انٹسٹائنل علامات زیادہ ہوتی ہیں جبکہ اس میں بخار کے چانس کم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اپسلون کے مریض کی علامات بھی فلوکی طرح ہیں اور اس کی علامات وہی ہیں جو ایلفا کی ہیں۔ یہ ویرینٹ اپنی کوئی مختلف کلاسیکل علامات نہیں دکھا رہا۔

ڈاکٹرعرفان کہتے ہیں کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر کراچی میں۔ لیکن اگر لاہور کی بات  کریں تو یہ کچھ عرصے سے ایک لیول پر کھڑا ہے۔ مثبت کیسز کی شرح ایک ہی جگہ کھڑی ہے۔

ویرینٹس کس طرح تبدیل ہوتے ہیں؟

کرونا ایڈوائزری کمیٹی کے رکن ڈاکٹر جاوید حیات کہتے ہیں: 'ویرینٹ تبدیل ہونے کا علم یوں ہوتا ہے کہ جن جی نومز اور جینز سے مل کروائرس بنتے ہیں اس کی مسلسل سیکونسنگ کی جاتی ہے۔

’برطانیہ میں تو باقاعدہ ایک لیبارٹری ہے جہاں تمام مثبت کیسز کے نمونوں کی ٹیسٹنگ کی جاتی ہے تاکہ دیکھا جاسکے کہ جو وائرس کا ایک سٹینڈرڈ سیکونس ہے اس میں کوئی تبدیلی تو نہیں ہوئی؟ اگر اس میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے اور وہ مختلف نمونوں میں دیکھی جاتی ہے تو پھر معلوم ہوتا ہے کہ یہ وائرس کا مختلف ویرینٹ ہے۔‘

ڈاکٹر جاوید کے بقول عموماً وائرسز میں میوٹیشنز ہوتی ہیں اور کرونا وائرس میں بھی ہزاروں کی تعداد میں میوٹیشنز ہوئی ہیں۔ یہ میوٹیشن فنکشنل نہیں ہوتی اور اپنی موت خود مر جاتی ہے۔

’جب وائرس ریپلیکیٹ کر رہے ہوتے ہیں اور ان کے ری پرنٹ اچھی طرح سے نہیں بنتے تو وہ 99.9  فیصد مر جاتے ہیں۔ مگر کچھ بچ جاتے ہیں پھر ان کی کریکٹرسٹکس تبدیل ہوتے ہیں جس کے بعد ان کو ویرینٹ کا نام دے دیا جاتا ہے۔‘

کیا ویکسینیشن لگوانے والے ڈیلٹا ویرینٹ سے بھی محفوظ ہو جائیں گے؟

ڈاکٹر محمدعرفان کہتے ہیں: ’جہاں تک ویکسینیشن کی بات ہے تو اگر ہم اپنا ہدف حاصل کربھی لیتے ہیں تو اس ویکسینیشن کو موثر ہونے کے لیے چھ سے آٹھ ہفتے چاہییں یا چھ مہینے چاہییں۔

’یہ منحصر ہے کہ آپ نے ویکسین کون سی لگوائی ہے اس لیے ہم شاید ویکسین کے ڈیلٹا ویرینٹ کے خلاف اتنا فائدہ نہ لے سکیں کیونکہ ہم اب ویکسین لگانے کی اس رفتار پرآئے ہیں جس پر ہمیں تقریباً دوماہ قبل ہونا چاہیے تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ویکسین کے حوالے سے ہمارے پاس جو ثبوت ہیں اس کے مطابق ایسٹرا زینیکا، فائزر، موڈرنا، ڈیلٹا ویرینٹ کے خلاف بھی کام کرتی ہیں۔

’اس وقت ہمارے پاس جو مریض آ رہے ہیں ان میں سے 80 فیصد مریضوں نے اپنی ویسکینیشن نہیں کروائی۔ 10 سے 15 فیصد وہ ہیں جن کی ویکسینیشن ہو چکی ہے

’ویکسینیڈ مریضوں میں بیماری کی شدت کم ہے لیکن یہ ابھی ابتدائی مشاہدہ ہے۔ اگلے آنے والے دو ہفتے اہم ہیں جو ہمیں بتائیں گے کہ صورتحال کس طرف جا رہی ہے؟

ہسپتالوں کی صورتحال کیا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر جاوید حیات کہتے ہیں کہ اس وقت ہسپتالوں میں صورتحال کافی بہتر ہے، آکسیجن بیڈز اور آئی سی یو بھی صرف 15 سے 18 فیصد بھرے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وارڈز میں 80 فیصد سے زیادہ بیڈز خالی ہیں۔ زیادہ مسئلہ کراچی کا ہے جہاں مثبت کیسسز کی شرح 20 سے 24 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

’ان میں سے 50 فیصد لوگ ہسپتالوں میں داخل ہو جاتے ہیں جس کا پریشر آپ کے ہیلتھ کیئر سسٹم ہر آتا ہے۔ ہمارا ہیلتھ کیئر سسٹم پہلے ہی اتنا مضبوط نہیں تو وہ برداشت نہیں کر پائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت