اولمپکس اور ہمارے کاغذی ادارے

ترانوے ممالک کوئی نہ کوئی تمغہ حاصل کر سکے جن میں پاکستان شامل نہیں تھا۔ شام جو اس وقت حالت جنگ میں ہے انہوں نے بھی ایک تانبے کا میڈل جیتا۔

پاکستان کے ایتھلیٹ ارشد ندیم کے حامی ہفتے کو لاہور میں مردوں کے جیولین تھرو فائنل سکرین پر دیکھ رہے ہیں (اے ایف پی)

اولمپکس کھیلوں کی میزبانی کرنا کوئی سستا سودا نہیں ہے۔ ٹوکیو میں ان کھیلوں کا انتظام کرنے کے لیے جاپان کو 15.4 ارب ڈالر خرچ کرنے پڑے۔

اس بھاری خرچ کے باوجود دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ان کھیلوں کی میزبانی کے حقوق حاصل کرنے کے لیے سخت مقابلہ کرتے ہیں۔ یہ کھیل سفارتی سافٹ پاور کا ایک بہترین ذریعہ ہیں۔

میزبان ملک دنیا کے سامنے اپنی انتظامی، ثقافتی اور تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرتا ہے جس سے نہ صرف ملک کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ سرمایہ کاری، تجارت اور برآمدات کو بھی بہت فروغ ملتا ہے۔

صرف میزبان ملک ہی نہیں مہمان ممالک بھی ان کھیلوں میں تمغوں کی دوڑ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں تاکہ بتا سکیں کے ان کے معاشرے تندرست اور توانا ہیں۔ ٹوکیو میں تمغوں کی دوڑ میں امریکہ اور چین میں سخت مقابلہ ہوا جو اس بات کا ثبوت بھی تھا کے اس وقت دنیا میں دو بڑی عالمی طاقتیں ہیں۔

ترانوے ممالک کوئی نہ کوئی تمغہ حاصل کر سکے جن میں پاکستان شامل نہیں تھا۔ شام جو اس وقت حالت جنگ میں ہے انہوں نے بھی ایک تانبے کا میڈل جیتا۔

پاکستان کو صرف ایک کھیل میں تمغہ ملنے کی امید تھی۔ ارشد ندیم نے حکومتی مدد کے بغیر اچھی کارکردگی دکھائی اور جیولین تھرو کے فائنل میں پانچویں نمبر پر آئے۔ ہمارے پڑوسیوں میں ایران اور بھارت دونوں کو سات سات تمغے ملے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اولمپکس میں پاکستان کے پاس یہ موقع تھا کے دنیا کے سامنے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرے اور کم از کم چند کھیلوں میں ممتاز مقام حاصل کرے۔ جمیکا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ انہوں نے چھوٹے اور درمیانی فاصلے کی دوڑ پر اپنی توجہ مرکوز کی اور اس کھیل میں دنیا کا نمبر ون ملک بنے۔ اسی طرح کینیا نے 1500، 500 میٹر اور میراتھن میں ممتاز مقام حاصل کیا۔

پاکستان میں باکسنگ، ریسلنگ، جیولین، دوڑ اور ہاکی وہ کھیل ہیں جن پر اگر توجہ دی جاتی تو حکومت کے پاس موقع تھا کہ اس قوم کی دنیا میں عزت بڑھائی جا سکتی۔ مگر افسوس پاکستان کے ہر ادارے پر نااہلی اور نالائقی کا راج ہے۔ کاغذوں میں ہم نے ہر قسم کا ادارہ بنا رکھا ہے لیکن ان اداروں کا کام صرف یہ نظر آتا ہے کے کچھ منتخب اشرافیہ کے لیے تگڑی تنخواہوں والی نوکریوں کا انتظام کیا جائے۔

اب اولمپکس کو لے لیں۔ ہمارے پاس پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن بھی ہے اور پاکستان سپورٹس بورڈ بھی۔ مگر کارکردگی صفر۔ پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے سربراہ اس عہدے پر 2004 سے تعینات ہیں مگر مجال ہے کہ ان میں خراب کارکردگی پر عہدہ چھوڑنے کی کوئی سوچ پیدا ہوئی ہو۔

وزیر اعظم کا دعوی ہے کہ انہوں نے کھیلوں میں تین پی ایچ ڈی کر رکھی ہیں مگر ہر دوسرے کام کی طرح کھیل میں بھی اس قوم کی امیدوں پر پورے نہ اترے۔ غرور اور تکبر مگر اپنی جگہ قائم ہے۔

عام تاثر ہے کہ سابق فوجی اچھے منتظم ہوتے ہیں۔ بہت سے اہم اداروں میں یہ ریٹائرڈ جنرل تعینات ہیں جن میں پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن بھی ہے۔ مگر ان اداروں کی کارکردگی بہتر ہونے کی بجائے مسلسل خراب ہو رہی ہے۔ کیا یہاں بھی قابلیت کی بجائے کچھ اور عوامل پر تعیناتیاں ہوتی ہیں۔

جمہوریہ پاکستان میں اس وقت ہر طرف نااہلی اور نالائقی کا راج ہے۔ کاغذی اداروں پر قائم یہ جمہوریہ کب تک چل سکتی ہے؟ اندرونی اور بیرونی دباؤ اس کے کمزور اداروں میں دراڑیں ڈال رہا ہے اور یہ کسی وقت بھی گر سکتے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ارشد ندیم جیسے ہیروں کی سرپرستی کرکے ہم مستقبل میں اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ