ایران میں 1988 کے قتل عام کی عدالتی کارروائی سویڈن میں شروع

ایرانی جیل کے ایک سابق افسر پر الزام ہے کہ انہوں نے ’جان بوجھ کر بڑی تعداد میں ایسے قیدیوں کی جان لی جو پیپلز مجاہدین کے ہمدرد تھے یا ان کا تعلق اس تنظیم سے تھا۔‘

چار ستمبر، 2020 کی اس تصویر میں ایک خاتون واشنگٹن میں ’آرگنائزیشن آف دی ایرانین امریکن کمیونیٹیز‘ کے تحت فوٹو نمائش میں ایران میں 1988 کے قتل عام میں مارے جانے والوں کی تصاویر کے سامنے سے گزر رہی ہے (اے ایف پی)

سویڈن میں منگل کو 1988 میں ہزاروں سیاسی مخالفین کے قتل کے ملزم اور ایرانی عہدے دار حامد نوری پر مقدمے کی کارروائی کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ اس مقدمے سے ایران میں سیاسی کشیدگی کو ہوا مل سکتی ہے۔

سویڈن کے پروسکیوٹرز نے 60 سالہ حامد پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے ’جان بوجھ کر بہت بڑی تعداد میں ایسے قیدیوں کی جان لی جو پیپلز مجاہدین کے ہمدرد تھے یا ان کا تعلق اس تنظیم سے تھا۔‘

مخالفین کو جان سے مارنے کی کارروائی 30 جولائی اور 16 اگست 1988 کے دوران اس وقت کی گئی جب حامد تہران کے قریب کرج کے علاقے میں قائم گوہر دشت جیل کے ڈپٹی گورنر کے معاون تھے۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں ایران بھر میں تقریباً پانچ ہزار قیدیوں کی ہلاکت پر انصاف کے لیے طویل عرصے تک مہم چلاتی رہی ہیں۔

ان قیدیوں کو مبینہ طور پر رہبر اعلیٰ آیت اللہ خمینی کے حکم پر پیپلز مجاہدین کے حملوں کے جواب میں 1980 سے 1988 تک جاری رہنے والی جنگ کے اختتام پر مارا گیا۔

سویڈن کے عدالتی حکام کا ماننا ہے کہ منگل کو شروع ہونے والا مقدمہ لوگوں کے قتل کے الزام میں چلایا جانے والا اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے۔

الزامات کی طرف سویڈن کے حکام کی توجہ 30 شکایت کنندگان، انصاف کے لیے مہم چلانے والوں اور سابق ایرانی سیاسی قیدی ایرج مصداقی نے دلائی۔

مصداقی نے نوری کے خلاف ’کئی ہزار صفحات پر مشتمل‘ ثبوتوں کی دستاویز تیار کرنے کے بعد ایرانی جیل کے سابق افسر کو پرتعیش بحری جہاز کے وعدے پر سویڈن بلوایا۔ سویڈن پہنچنے پر نوری کو گرفتار کر لیا گیا۔

سویڈن کے دنیا بھر میں دائرہ اختیار کے اصول کا مطلب ہے کہ اس کی عدالتیں اس سے قطع نظر کہ مبینہ جرائم کہاں ہوئے کسی شخص پر قتل یا جنگی جرائم جیسے سنگین الزامات کے تحت مقدمہ چلا سکتی ہیں۔

مصداقی نے اے ایف پی کو بتایا: ’یہ پہلا موقع ہے کہ ظلم میں ملوث افراد میں ایک کا کسی دوسرے ملک میں احتساب ہو رہا ہے۔‘

دوسری جانب نوری کے وکیل سوڈرکوئسٹ نے بتایا کہ ’نوری 1988 میں لوگوں کو ہلاک کرنے میں ملوث ہونے کے کسی بھی الزام کی تردید کرتے ہیں۔‘

’ڈیتھ کمیشن‘ کے الزامات

نوری کا مقدمہ ایران کے لیے خاص طور پر حساس ہے جہاں مہم چلانے والوں کا موجودہ ایرانی حکومت کے عہدے داروں پر الزام ہے ان کا لوگوں کو مارنے میں کردار ہے۔

ان عہدے داروں میں ایران کے نئے صدر ابراہیم ریئسی سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایرانی عدلیہ کے سابق سربراہ پر 2018 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے الزام لگایا تھا کہ وہ اس ’ڈیتھ کمیشن‘کے رکن ہیں جو لوگوں کو خفیہ طور پر مارنے کے پیچھے ہے۔

2018 میں سوال کیے جانے پر ریئسی نے ڈیتھ کمیشن کا رکن ہونے کی تردید کی تھی لیکن صفائی کا ’حکم‘ دینے پر آیت اللہ خمینی کو’خراج تحسین‘ پیش کیا۔ خمینی 1989 میں وفات پا گئے تھے۔

مئی کے آغاز میں ڈیڑھ سو سے زیادہ شخصیات نے، جن میں نوبیل انعام یافتہ افراد، سابق سربراہان مملکت اور اقوام متحدہ کے سابق عہدے دار شامل ہیں، 1988 میں ہونے والی ہلاکتوں کی عالمی سطح پر تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

استغاثہ کے مطابق حامد نوری پر بھی الزام ہے انہوں نے اسی مدت کے دوران نظریے کی بنیاد پر ان دوسرے قیدیوں کو مارنے میں حصہ لیا جنہیں’مذہبی ایرانی ریاست‘ کا مخالف سمجھا گیا۔

منگل کو شروع ہونے والے مقدمے کی تین دن کی سماعت کے دوران سویڈن کی عدالت درجنوں گواہوں کے بیانات سنے گی۔ توقع ہے کہ مقدمے کا فیصلہ اپریل 2022 میں سنایا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ