یہ لاش فرشتہ کی نہیں ہے!

ریپ کے بعد قتل ہونے والی 10 سالہ فرشتہ کے کیس کے بعد سے ذہن ماؤف ہے۔ بالکل اُسی طرح جیسے قصور کی معصوم زینب کے کیس پر عجیب حالت تھی۔

 لاہور میں گذشتہ برس بچیوں کے جنسی استحصال کے خلاف احتجاج کا ایک منظر۔ (اے ایف پی)

جب معاشرہ تعفن زدہ ہوجائے اور انسانوں کی شکل میں بھیڑیے روپ بدل بدل کر حیوانیت کا پرچار کریں۔ جہاں بچوں اور بڑوں میں اچھائی اور برائی میں تمیز نہ ہو۔ جہاں اپنے سگے خون کے رشتے بھی قابل اعتبار نہ ہوں۔ جہاں اپنی درندگی اور ہوس کے لیے معصوم بچیوں کو نشانے پر رکھا جائے تو وہاں زینب اور فرشتہ جیسی معصوم بچیاں سوال کرتی ہیں کہ ہم کیسے معاشرے کا حصہ ہیں؟ یہ کون سا معاشرہ ہے جہاں ہم جیسے فرشتوں کی عزت اور جانیں بھی محفوظ نہیں۔

ہمیں تو الف ب پ پڑھنا ہے۔ اے بی سی پڑھنی ہے مگر ہمارے ساتھ یوں درندگی کی جاتی ہے۔

فرشتہ کے کیس کے بعد سے ذہن ماؤف ہے۔ اسی طرح جیسے قصور کی معصوم زینب کے کیس کے بعد عجیب حالت تھی۔ فرشتہ کی لاش مجھے قصوروار ٹھہرا رہی ہے کہ میں ہی ریپسٹ ہوں بلکہ کہہ رہی ہے کہ ایک تو ہی نہیں بلکہ ساری قوم میری ریپسٹ ہے۔ پانچ دنوں تک ان کے بابا پولیس کا چکر لگاتے رہے لیکن ’پولیس والے انکل‘ رپورٹ درج کرانے سے انکاری تھے۔ کیوں؟ اسے لیے کہ شاید میں ان کی اپنی بیٹی نہیں تھی۔ یہاں کوئی بھی اپنا نہیں ہے۔ کوئی بھروسے کے قابل نہیں ہے۔ وہ کہہ رہی ہے کہ اس کے والدین آج کے بعد روز مریں گے اور روز خون کے آنسو روئیں گے۔ ’میں کتنا چیخی اورچلائی۔ ماموں، انکل، چاچو کے نعرے لگائے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔‘

اس واقعے کی طرف دیکھتا ہوں تو اس کا ذمہ دار صرف ایک بندہ نہیں بلکہ ہم سب اس کے ذمہ دار نظر آتے ہیں۔ ملک کا پارلیمان، ملک کی عدلیہ اور ملکی قانون نافذ کرنے والے سارے ادارے اس کے ذمہ دار ہیں۔ گذشتہ پانچ سال کے ہیومن رائٹس کمیشن کے اعدادوشمار اٹھا کر دیکھیں تو پورے ملک میں بچوں سے زیادتی کے 18 ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں 11 ہزار کے قریب لڑکیوں سے زیادتی ہوئی جبکہ 7 ہزار 242 لڑکوں کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ یہ وہ واقعات ہیں جو پولیس تھانوں میں رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ ان میں 60 فیصد زیادتی کے واقعات کم عمر بچیوں کے ساتھ پیش آئے۔

یہ تو وہ اقعات ہیں جو رپورٹ ہوسکے، ورنہ ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو بدنامی کے ڈر سے یا پولیس کچہری کے چکروں سے بچنے کے لیے خاموشی میں ہی عافیت جانتی ہے۔ اوسطاً ہرسال ملک بھر میں 35 سو سے زائد بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان واقعات میں سزا کا تصور بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ اب تک ان پانچ سالوں میں صرف 120 افراد کو ہی سزا مل سکی ہے۔

آج پھر ایک لاش سڑک پر پڑی ہے، جہاں پولیس افسر اس پانچ دن پرانی لاش کے والد کو دھمکیاں دے رہا ہے کہ لاش کا احترام مقصود نہ ہوتا تو ’تمھیں ٹھیک کر دیتا۔‘ اسے پتہ نہیں ہے کہ یہ فرشتہ کی لاش نہیں بلکہ ہمارے ضمیر کی لاش ہے۔ یہ ریاست اسلامیہ کے کرتا دھرتاؤں کی لاش ہے۔ یہ سیاسی قوتوں کی لاش ہے۔ یہ بدعنوان نظام، قانون اور نااہل عدلیہ کی لاش ہے۔ اس لیے اس قوم کی لاش کو مٹی میں دبا کر بھول جاؤ اور پھر ایک اور ننھی کلی کے کچلے جانے کا انتظار کرو، کیونکہ یہی دستور ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ