پاکستان مبارک !

74 سال کا انسان تو بس آخرت کی فکر میں لگا رہتا ہے مگر ملک 74 سال کا ہو جائے توآگے بڑھنے کی لگن ہر گزرتے دن ایک نئے ولولے کے ساتھ ابھرتی ہے۔

 کیا واقعی آج ہم وہی اسلامی فلاحی مملکتِ خداداد ہیں جس کی بنیاد 1940 میں رکھی گئی تھی اور جس کی پہلی اینٹ 1947 میں استوار کی گئی؟(اے ایف پی)

74 سال کا ہو گیا پاکستان۔ کم از کم چار نسلوں پرانا۔ مبارک ہو سبھی پاکستانیوں کو۔

 کسی فرد کی زندگی میں تو ہر سال سالگرہ کا دن گھٹتی عمر کا نقّارہ ہوتا ہے اور طبعی زوال کا سبب؛ مگر ملکوں اور قوموں کی زندگی میں ایسا ہر نیا سال ایک نئی امید، نئے جوش، نئےجذبے اور نئی آس کی روح پھونکتا ہے۔

 74 سال کا انسان تو بس آخرت کی فکر میں لگا رہتا ہے مگر ملک 74 سال کا ہو جائے توآگے بڑھنے کی لگن ہر گزرتے دن ایک نئے ولولے کے ساتھ ابھرتی ہے۔

 وقت کس قدر تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے اس کااحساس قوموں کی زندگی کیلئے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال پاکستان کا یومِ آزادی، جشنِ آزادی مناتے جہاں سبھی پاکستانی یکساں خوشی اور فخر محسوس کرتے ہیں وہاں کچھ لوگ تو ملکی ترقی اور خوشحالی کے مستقبل کے سنہرے خواب اوردل آور منصوبے سجاتے ہیں اور کچھ ماضی اور حال کی قومی غلطیوں کی یاد اجاگر کرتے ہوئے مستقبل کی محتاط پیش بندی پر خبردارکرتے رہتے ہیں۔

 مقصد سبھی کا ایک ہی ہوتا ہے؛ ملک اور قوم کی بہتری، اگرچہ اس کے طریقے، اندازے یا انداز مختلف ہی کیوں نہ ہو۔

 میرا تعلق بھی آپ یوں سمجھیے کہ دوسرے قبیل کے پاکستانیوں سے ہے۔ جب تک غلطیوں کی نشاندہی نہ کروا دی جائے؛ گویا 14 اگست کا مفہوم ادھورا ہی رہتا ہے۔ سچ پوچھئیے تو ایسے لوگوں کی موجودگی چاہے کسی ایک انسان کی زندگی میں، ادارے کےسٹرکچر میں یا قوموں کے طویل سفر میں انتہائی لازمی ہے جو آپ کو ہمہ وقت اور بروقت خامیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں سے آگاہ کرتے رہیں تاکہ اگلے اٹھنے والا ہر قدم میں لغزش کی گنجائش باقی نہ رہے۔

 ان 74 سالوں میں پاکستان نے کیا حاصل کیا، کیا پایا، کیا گنوایا اور کیا کھویا۔۔۔؟

 کیا واقعی آج ہم وہی اسلامی فلاحی مملکتِ خداداد ہیں جس کی بنیاد 1940 میں رکھی گئی تھی اور جس کی پہلی اینٹ 1947 میں استوار کی گئی؟

 کیا ان سات دہائیوں سے زائد کے عرصےمیں ہم نے وہ مقاصد حاصل کیے جو قراردادِ مقاصد کی روح تھے۔ وہی قراردادِ مقاصد جو پاکستان کے پہلے آئین کیلئے بنیاد بنی؟

 کیااِس مملکت نے اپنے اختیارات و اقتدار کو واقعتاً جمہور ہی کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کیا ہے؟

 کیا ان سات دہائیوں میں پاکستانی معاشرے میں اسلام کے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدل ِعمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا گیا ہے؟

 کیا ان چوہتر سالوں میں واقعی اس امر کا قرارواقعی اہتمام کیا گیا ہے کہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتیں اپنے مذاہب پرعقیدہ رکھنے عمل کر نے اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد رہی ہوں؟

 کیا اس طویل عرصے میں تمام پاکستانیوں کو یکساں طور پر بنیادی حقوق کی آزادی حاصل رہی ہے؟

 کیا ان سات دہائیوں سے زائد کے طویل عرصے میں ہر پاکستانی کو مساوات کی بنیادپر حیثیت اور مواقع کی نظر میں برابری، عمرانی، اقتصادی اور سیاسی انصاف، اظہارِ خیال، عقیدہ، دین، عبادت اور جماعت کی آزادی حاصل ہوئی ہے؟

کیا اس طویل عرصے بعد بھی آج ہم وہی پاکستان ہیں جو قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال جیسے ترقی پسندوں نے سوچا اوراستوار کیا تھا؟

 اگر تو ان تمام بنیادی سوالوں کا جواب نفی میں یا پَس و پیش کی اگر مگر کیساتھ ہچکچاہٹ میں ہے تو جان لیجیے کہ ملک اور قوم کیحرکت تیز تر مگر سفر آہستہ ہے۔ 

و پھر غلطی کہاں ہوئی ہے؟

 کوتاہی کہاں ٹھہری ہے؟

 خامی کہاں رکاوٹ بنی ہے؟

 جواب ہو گا؛ھم سب اس کے ذمہ دار ہیں۔

 قوموں کی زندگی میں نہ تو ترقی کسی ایک طبقے کا ثمر ہے نہ تنزّلی کسی دوسرے طبقے کا بار۔

 سبھی یکساں ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ملک اقوام سے تشکیل پاتے ہیں اور قوم افراد کا مجموعہ۔ ہر فرد کی انفرادی زندگی پوری قوم کی اجتماعی زندگی کااہم رکن ہوتی ہے۔ ہر ایک فرد اپنی انفرادی زندگی میں کتنا ایماندار، مخلص، بااُصول اور درست راستے پر چلنے والا ہے، یہی تعین کرتاہے کہ افراد کے مجموعی رویے اقوام کی ترقی کا پیش خیمہ ہیں یا تنزّلی کی وارننگ۔

 مثال کے طور پر رحیم یار خان کے حالیہ افسوسناک واقعے کی مثال ہی لے لیجیے۔ کس طرح اقلیتی ہندو برادری کے مذہبی مقام کی بےحرمتی کی گئی جو نہ صرف دینِ اسلام کی تعلیمات کے خلاف بلکہ آئینِ پاکستان اور قوانین کے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی پامالی اور اخلاقی اقدار و روایات پر بھی رکیک حملہ تھا۔

 اچھا ہوا کہ ملک کی اعلی ترین عدالت نے نوٹس لے لیا وگرنہ تین دن تک تو پولیس نے نہ ہی ایف آئی آر کاٹی نہ ہیکوئی کاروائی کی گئی۔ ایسے میں ریاست کا کردار؛ صفر۔

 حملہ کروانے والے کون؛ اِسی قوم کے افراد۔ حملے کے بعد خاموش رہنےوالے کون؛ اِسی پاکستان کے ایک اہم شہر کے علاقے کے باسی۔ کوئی تو ہوتا جو اِس مذہبی، انسانی، بنیادی حقوق کی پامالی کی خلافوہیں دیوار بن جاتا تاآن کہ معاملہ میڈیا پر نہیں آ گیا اور پھر خوب شور واویلا ہوا جس پر معزز چیف جسٹس صاحب نے بھی سنوائی رکھی۔

 کیا ہم بطور قوم بھول گئے کہ اِسی اسلامی مملکتِ خداداد میں اس کے بانی قائداعظم نے پہلا وزیرِ قانون ایک ہندو جوگندراناتھ منڈل کو مقرر کیا تھا؟

وہی جوگندرا ناتھ منڈل جس نے قراردادِ مقاصد کے اسلامی آفاقی اصولوں کی بھرپور حمایت کی۔ اور اسی ہندو وزیرِ قانون کے بنائے گئے قانونی ڈھانچے اور حمایت یافتہ قراردادِ مقاصد کے سانچے میں ڈھلے آئینِ پاکستان کے سائے میں انہی کی برادری پر خلافِ آئین و قانون حملے۔۔۔۔؟

 اسی ہندو وزیرِ قانون کی سرپرستی میں سیکرٹری قانون جسٹس کارنیلئس جو کہ کَٹّرکیتھولک مسیحی تھے نے بھی قراردادِ مقاصد کے حق میں ہی ووٹ دیا۔ اور مسیحی برادری کیساتھ بھی من حیث القوم ہمارا روّیہ کچھ بہت زیادہ قابلِ عنواں نہیں۔

 یہ محض ایک مثال ہے کہ افراد کے رویے کس طرح اقوام کے مجموعی مزاج کی تشکیل کرتےہیں اور کس طرح حتمی طور پر تعین ہوتا ہے کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے یا محض خام خیالی ہے۔

 ہر فرد اپنی انفرادی زندگی کاتنقیدی جائزہ لے کر خود محاسبہ کرے کہ کیا وہ ایک اچھا بہتر پاکستانی ہے؛ تبھی ہم بطور قوم درستی کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں۔

ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم قائداعظم کے بعد سے آج تک کسی مسیحا نما لیڈر کی تلاش میں ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ جب تک ہمیں کوئی الوہی، الہامی خدا کی طرف سے ودیعت کردہ رہنما موصول نہیں ہو گا ہم تب تک درست سمت اختیار نہیں کر سکتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ایسے ہی مسیحا کے انتظار میں ہماری قوم نے سات دہائیاں ضائع کر دیں اور ہم سے بعد آنے والے ہم سے کہیں آگے نکل گئے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنا رہنما خود ہے۔

 کیا ہم بطور فرد قانون کی پاسداری کرتے ہیں۔ کیا ہم اپنے حصّے کا کام ایمانداری اور خلوص سے انجام دیتے ہیں۔ کیا ہم معاشرتی لین دین میں ملاوٹ، دھوکے بازی سے اجتناب کرتے ہیں۔ کیا ہم انصاف کیساتھ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ کیا ہم دیگر پاکستانیوں کاحق تو نہیں مارتے؟

کیا ہم اپنے ہم وطنوں کو ان کے تمام شخصی بنیادی حقوق ادا کرتے ہیں۔ کیا ہم ایک دوسرے کے ساتھ رواداری، برداشت، عزت کا سلوک روا رکھتے ہیں؟

اگر ان تمام معمولی مگر انتہائی اہم باتوں کا جواب ہاں میں نہیں ہے تو خرابی نہ تو سسٹم میں ہے، نہ ہی صحیح رہنما یا لیڈر نہ ملنے میں بلکہ اصل خرابی صرف اور صرف ہمارے اندر ہی ہے۔

اسی خرابی کو درست کر لیا جائے تو آئندہ 74 سالوں بعد پاکستان کو عزت، ترقی اور خوشحالی کے ایسے مقام پر پائیں گے جو اس کے بانیوں کا خواب اورہم سب کے دل کی آرزو ہے۔ تبھی اصل مزہ ہے آزادی منانے کا، آزادی مبارک کہنے کا۔ تبھی تو ہو گا اصل معنوں میں پاکستان مبارک۔

وگرنہ سال کے سال پٹاخے پھوڑنے، باجے بجانے، ترانے گانے، سبز رنگ لہرانے ، سجانے اور پہنانے تک ہی محدود رہے گا آزادی کا اصل مقصد۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ