13 اگست 1954: جب پاکستان کے قومی ترانے کو الفاظ ملے

آئین ساز اسمبلی کی ترانہ کمیٹی یکم مارچ 1947 کو تشکیل دی گئی جس کے ذمے دو کام تھے، قومی ترانے کی دھن بنوانا اور اس دھن پر شاعری ترتیب دلوانا۔

14 اگست 1947 کو جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو قومی ترانہ تھا نہ اس کی دھن۔

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے یکم مارچ 1949  کو آئین ساز اسمبلی کی ترانہ کمیٹی تشکیل دی جس کے ذمے دو کام تھے۔ ایک قومی ترانے کی دھن بنوانا اور پھر اس دھن کی شاعری ترتیب دلوانا۔

اس خصوصی ترانہ کمیٹی کو دو ذیلی کمیٹیوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ایک کی ذمہ داری دھن اور دوسری کی شاعری پر لگا دی گئی۔

بالآخر مشہور اور منجھے ہوئے موسیقار احمد غلام علی چھاگلہ کی بنائی ہوئی دھن کو قومی ترانہ کمیٹی نے حتمی طور پر منتخب کر لیا۔ قومی ترانے کی یہ دھن پہلی مرتبہ ایران کے سربراہ مملکت رضا شاہ پہلوی کی پاکستان آمد پر یکم مارچ 1950 کو سرکاری سطح پر پیش کی گئی۔ یہ کسی بھی غیر ملکی سربراہِ مملکت کا پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ تھا۔

دھن بننے کے بعد اس کی شاعری تخلیق کروانے پر کام کا آغاز ہوا۔ اخباری اور ریڈیو اشتہارات کے ذریعے ملک بھر سے قومی شعرا کو اپنی شاعری اس مقصد کے لیے بھیجنے کو کہا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کل ملا کر 723 ترانے موصول ہوئے جن میں سے حکیم احمد شجاع پاشا، ذوالفقار علی بخاری اور حفیظ جالندھری کے لکھے ترانوں کو پاکستان کی مرکزی کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ ذوالفقار علی بخاری جنہیں زیڈ اے بخاری بھی کہا جاتا ہے اس وقت ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ جب انہوں نے احمد علی چھاگلہ کی بنائی ہوئی قومی ترانے کی دھن سنی تو  اس کے لیے شاعری بھی لکھ لی۔

پاکستان کی مرکزی کابینہ نے حفیظ جالندھری کے تحریر کردہ قومی ترانے کو منتخب کر لیا اور 13 اگست 1954 کو پہلی مرتبہ یہ قومی ترانہ بمع دھن اور شاعری ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔ اس طرح 13 اگست 1954 یعنی آج سے ٹھیک 67 سال پہلے پاکستان کے قومی ترانے کی دھن کو الفاظ مل گئے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے لیے قومی ترانے کی دھن پیش کرنے والوں کا تعارف

قومی ترانے کا پہلا بند رباب پر پیش کرنے والے عادل رضا کا تعلق کوئٹہ سے ہے اور وہ شوقیہ رباب بجاتے ہیں۔ عادل رضا نیشنل کالج آف آرٹس لاہور سے فائن آرٹس میں ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔

قومی ترانے کا دوسرا بند ہارمونیم پر پیش کرنے والے رانا محمد طاہر ہیں جو کراچی کے رہائشی ہیں۔ طاہر بنیادی طور پر ایک فوٹو جرنلسٹ ہیں اور ہارمونیم شوق کے طور پر بجاتے ہیں۔

قومی ترانے کا تیسرا اور آخری بند ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے تین دوستوں نے مل کر پیش کیا ہے۔ رباب نواز عالم دین، ہارمونیم نواز سعید انور اور ڈھولچی مصور خان۔

عالم دین کیڈٹ کالج رزمک سے ایف ایس سی کر چکے ہیں اور شوقیہ رباب بجاتے ہیں۔ سعید انور اور مصور خان کو موسیقی کا تعارف گھر سے ملا ہے اور وہ پیشہ ورانہ طور پر اس سے وابستہ ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا