جب پاکستان میں تین دن کے لیے فوجی وزیراعظم کا تقرر ہوا

ٹھیک آج کے دن 1958 میں جنرل ایوب نے صدر اسکندر مرزا کا بستر گول کر کے وہ مثال قائم کی جو آج تک ملک کے گلے میں اٹکی ہوئی ہے۔

خاتونِ اول ناہید مرزا جنرل ایوب کے ہمراہ (پبلک ڈومین)

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 1950 کی دہائی آئینی و قانونی بحران اور انتظامی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ آمرانہ اور جمہوری قوتوں کے مابین آویزش کے حوالے سے یاد رکھی جاتی ہے۔

اکتوبر 1958 تک پاکستان کے سیاسی حالات بد سے بدترین نہج تک پہنچ چکے تھے۔ مرکز میں وزارتیں ٹوٹنا روز کا معمول بن چکا تھا۔ مغربی پاکستان میں ایک سابق وزیر اعلیٰ اور رپبلکن پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر خان صاحب، ایک پٹواری اور مشرقی پاکستان میں صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر شاہد علی اسمبلی کے ارکان کے ہاتھوں قتل ہو چکے تھے۔ بقول ایوب خان ’وہ لمحہ جس کا مدت سے انتظار تھا، آخر کار آن پہنچا تھا اور اب ’ذمہ داری‘ سے جان چرانا ممکن نہیں رہا تھا۔‘

سات اکتوبر، 1958 کو پاکستان کے پہلے صدر میجر جنرل (ر) اسکندر مرزا نے مرکزی و صوبائی حکومتوں اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کو توڑنے، 1956 کے آئین کو منسوخ کرنے اور ملک میں مارشل لا نافذ کر کے جنرل محمد ایوب خان کو اس کا منتظم اعلیٰ مقرر کرنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم ملک کی صدارت بدستور اسکندر مرزا ہی کے پاس رہی۔

صدر ’جمہوریہ‘ اسکندر مرزا کو جمہوریت اور آئین کا کس قدر پاس تھا، اس کی ایک مثال ان کے سیکرٹری قدرت اللہ شہاب کی زبانی مل جاتی ہے۔ معروف سول سرونٹ اور صاحب طرز ادیب قدرت اللہ شہاب اپنی شہرہ آفاق آپ بیتی ’شہاب نامہ‘ میں لکھتے ہیں کہ 22 ستمبر، 1958 کو صدرِ پاکستان اسکندر مرزا نے انہیں بلایا۔

’ان کے ہاتھ میں پاکستان کے آئین کی ایک جلد تھی۔ انہوں نے اس کتاب کی طرف اشارہ کر کے کہا، ’تم نے اس ٹریش کو پڑھا ہے؟‘ جس آئین کے تحت حلف اٹھا کر وہ کرسیِ صدارت پر براجمان تھے اس کے متعلق ان کی زبان سے ٹریش کا لفظ سن کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔‘

23 مارچ، 1956 کو منظور ہونے والے جس آئین کو مرزا صاحب نے کوڑا قرار دیا تھا، وہ آئین پاکستان کی دستور اسمبلی نے انہی کی ولولہ انگیز قیادت میں تیار کیا تھا۔ اس آئین کے تحت پاکستان برطانیہ عظمیٰ کی ڈومینین سے نکل کر ایک خود مختار ملک کی حیثت سے ابھرا تھا اور اسی آئین نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا تھا۔

مارشل لا نافذ کرنے کے بعد اسکندر مرزا کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ آئین معطل کر کے اور اسمبلی تحلیل کر کے انہوں نے درحقیقت وہ شاخ ہی کاٹ ڈالی جس پر ان کا قیام تھا۔ چنانچہ اسکندر مرزا کے سات اور 27 اکتوبر کے درمیانی 20 دن بڑے مصروف گزرے۔ اس دوران انہوں نے پہلے تو فوج کے اندر ایوب مخالف دھڑوں کو شہ دے کر ایوب خان کا پتہ صاف کرنے کی کوشش کی۔

جب اس میں ناکامی ہوئی تو 24 اکتوبر کو ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے عہدے سے فارغ کر کے ’وزیر اعظم‘ کے طور پر ان کی نئی تعیناتی کا صدارتی حکم نامہ جاری کر دیا۔

ایوب خان نے اسی دن اپنے نئے عہدے کا حلف اٹھایا اور نئی کابینہ کے ارکان کے ناموں کا اعلان کر دیا۔ اس کابینہ میں وزیر اعظم جنرل ایوب خان کے علاوہ تین فوجی افسران لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان، لیفٹیننٹ جنرل واجد علی برکی، لیفٹیننٹ جنرل کے ایم شیخ اور آٹھ سویلین وزرا منظور قادر، ایف ایم خان، حبیب الرحمٰن، ابوالقاسم، حفیظ الرحمن، محمد شعیب، مولوی محمد ابراہیم اور ذوالفقار علی بھٹو شامل تھے۔

ایوب خان کو برابر اسکندر مرزا کی ’محلاتی سازشوں‘ کی اطلاعات ملتی رہیں اور انہوں نے بھی بھانپ لیا کہ اگر آئین نہیں ہے تو پھر صدر کا عہدہ چہ معنی دارد؟ چنانچہ 27 اکتوبر، 1958 کو صبح کے وقت ایوب خان کی کابینہ نے اپنے عہدوں کے حلف اٹھائے اور اسی رات جنرل برکی، جنرل اعظم اور جنرل شیخ پر مشتمل ’وفاقی وزرا‘ کی ایک عسکری ٹیم صدر اسکندر مرزا کے صدارتی محل پہنچ گئی، ملازمین نے بہتیرا کہا کہ صاحب اس وقت محو استراحت ہیں لیکن ’انقلابی مشن‘ پر مامور جرنیل اتنی آسانی سے کہاں ٹلنے والے تھے۔

انہوں نے سلیپنگ گاؤن میں ملبوس صدر سے پہلے سے ٹائپ شدہ استعفے پر دستخط لے لیے اور کہا کہ اپنا سامان اٹھا لیں، آپ کو ابھی اسی وقت ایوانِ صدر سے نکلنا ہو گا۔ اسکندر مرزا نے اپنے منصب کے حوالے سے خود کو ملک و قوم کے لیے ’ناگزیر‘ قرار دینے کی کوشش کی لیکن بیگم ناہید زیادہ معاملہ فہم ثابت ہوئیں اور انہوں نے صرف اتنا پوچھا، ’ڈیئر جنرلز! میری بلیوں کا کیا ہو گا؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خیال رہے کہ اسکندر مرزا نے نہ صرف سفارش کر کے جونیئر افسر ایوب خان کو کمانڈر انچیف لگوایا تھا بلکہ مارشل لا سے محض تین ماہ قبل ان کی مدتِ ملازمت میں دو سال کی توسیع بھی کی تھی۔ انہی ایوب خان نے بندوق کی نوک پر اسکندر مرزا کو جہاز میں لدوا کر پہلے کوئٹہ اور پھر ہوٹل چلانے کے لیے برطانیہ بھجوا دیا۔

حتیٰ کہ اگلے 10 سال صدر اسکندر مرزا کو فارغ کرنے کی تاریخ 27 اکتوبر کو ملک میں سرکاری طور پر ’یومِ انقلاب‘ منایا جاتا رہا اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہہ کر جہاد کرنے کے دعوے دار سینیئر صحافی ’صابر‘ بنے اپنے اخبارات میں ایشیا کے ’ڈیگال‘ کی وجاہت اور قومی خدمات پر خصوصی ضمیمے چھاپ کر ان کو ہدیہ تبریک پیش کرتے رہے۔

جنرل ایوب خان کے زیر قیادت نافذ ہونے والے مارشل لا کے تین ماہ بعد انتخابات طے تھے۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ اس وقت کے وزیرِ اعظم ملک فیروز خان نون کا حکومتی اتحاد جیت جائے گا اور یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ شاید اس کے ارکان اسکندر مرزا کو دوبارہ صدر منتخب نہ کریں۔ چنانچہ صدرِ مملکت کو عافیت اسی میں دکھائی دی کہ جمہوریت کی نیا ہی ڈبو دی جائے کہ نہ سیاست دانوں کا نو من تیل ہو گا نہ جمہوریت کی رادھا ناچے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ