بات کرنے سے ملک کی بدنامی کیسی؟

ملک کی بدنامی ہراسانی کے واقعات کو منظر عام پر لانے سے نہیں بلکہ ان پر بات نہ کرنے سے ہوتی ہے کیونکہ جب تک ہم ان پر بات نہیں کریں گے ان کی روک تھام کیسے ہو گی؟

آٹھ مارچ، 2019 کو اسلام آباد میں خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر خواتین ریلی نکال رہی ہیں (اے ایف پی)

گذشتہ چند روز سے میں اور میرے کئی دوست سنجیدگی سے سوچ اور مشورے کر رہے تھے اور آخر کار فیصلہ ہوا کہ اگلے ہفتے پشاور کا رخ کیا جائے اور کارخانو مارکیٹ سے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کے لیے ٹیزر خرید لیے جائیں۔ اس کے علاوہ پیپر سپرے بھی لے کر دیا جائے۔

ہم کیسے اور کیوں اس فیصلے پر پہنچے؟ بڑی وجہ ہماری بیویاں اور بیٹیوں نے خود کہا کہ اسلام آباد کو ہم محفوظ تو سمجھتے ہیں لیکن اتنا محفوظ نہیں اور کئی بار بازار میں یا گاڑی چلاتے ہوئے ان کو ہراساں کیا گیا ہے۔

انھوں ہی نے کہا کہ ان کو ٹیزر اور پیپر سپرے لے کر دیا جائے تاکہ وہ اپنا دفاع کر سکیں۔

ہم میں یہ بحث اس وقت شروع ہوئی جب لاہور کے اقبال پارک میں ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کے لیے جانے والی خاتون کے ساتھ مبینہ طور پر جنسی ہراسانی کے واقعہ سامنے آیا۔

ابھی اس واقعے کو بھلا بھی نہ سکے تھے کہ ہراسانی کا ایک اور واقعہ منظر عام پر آیا۔ میں نے اس سے قبل اقبال پارک کے واقعے کے حوالے سے، جی بالکل درست پڑھا آپ نے، میں نے ’بھُلا‘ ہی لکھا ہے۔ یہ لفظ اس لیے استعمال کیا کہ اس کے علاوہ ہم بطور معاشرہ کرتے ہی کیا ہیں۔

دوسرے واقعے نے تو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہم سب کو۔ ایک شخص نے سڑک پر ہجوم کے باعث روڈ پر رُک جانے والے چنگ چی رکشے میں بیٹھی خاتون کو ہراساں کیا۔  

صاف الفاظ میں کہا جائے تو ایک لڑکے نے چنگ چی رکشے میں بیٹھی ایک لڑکی کا بوسہ لیا۔

بلکہ الٹا ویڈیو میں صاف سنا جا سکتا ہے کہ آس پاس لڑکے اس کے اس عمل کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں ’اوئے ہوئے ہوئے، او جی اوئے۔‘

ایک کی آواز آتی ہے کہ ’کی ہو گیا اے یار کڑیاں ہن، چمی لے گیا اے‘۔ یہ دونوں واقعات کے حوالے سے تبصرے دیکھے تو دکھ سے زیادہ غصہ آیا۔

اگر ایک طرف یہ کہا جا رہا تھا کہ اقبال پارک میں ٹاک ٹاکر ہی نے افراد کو مدعو کیا اور غلط اشارے کیے تو دوسری جانب یہ کہا جا رہا ہے کہ ملک کی بدنامی ہو رہی ہے۔

ایک مذہبی رہنما کو سنا جو کہہ رہے تھے کہ عورت نے اپنے مداحوں کو خود مدعو کیا اور پھر نازیبا اشارے کیے جس کے باعث یہ واقعہ ہوا۔

لیکن یہ بات مولانا صاحب سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ اگر لڑکی مداحوں کو مدعو کرے اور جیسے بھی اشارے کرے تو مجمعے کو حق حاصل ہے کہ وہ مبینہ طور پر جنسی ہراسانی کرے۔

ہمارے ملک میں مذہبی رہنماؤں کے پیروکاروں کی ایک کثیر تعداد ہے اور مذہبی رہنماؤں کے ایسے بیانات صرف اور صرف اقبال پارک میں لوگوں کے فعل کو تقویت فراہم کرتے ہیں۔

دوسری جانب ایک گروپ ایسا بھی ہے جو ایسے واقعات کو اجاگر کرنے کو ملک کی بدنامی کہتے ہیں۔

ان کے لیے ہمارا جواب یہ ہے کہ ملک کی بدنامی ایسے واقعات کو منظر عام پر لانے اور اس پر بحث کرنے سے نہیں ہوتی بلکہ ایسے واقعات پر بات نہ کرنے سے ہوتی ہے۔

کیونکہ جب تک ہم ان واقعات کو منظر عام پر نہیں لائیں گے اور کھلے عام ان کی مذمت نہیں کریں گے تو ان میں اضافہ ہو گا۔ اس وقت ملک کی بدنامی زیادہ ہو گی۔ کیا خیال ہے؟

عیب اس بات میں نہیں کہ اگر ہم مل کر جنسی ہراسانی پر بات کریں اور اسی بات چیت کے ذریعے معاشرے میں آگہی آئے کہ اگر کوئی لڑکی ٹک ٹاک بنانے کسی پارک میں جاتی ہے چاہے وہ خود اپنے مداحوں کو وہاں مدعو کرے لیکن اس کے ساتھ زور زبردستی کرنا قطعاً قابل قبول نہیں۔

عیب تو اس بات پر ہے کہ ہم اس موضوع ہر بات ہی نہ کریں کہ ہمارا معاشرہ اتنا پست ہو چکا ہے کہ کھلے عام ایک لڑکا ایک لڑکی کو ہراساں کرتا ہے اور ارد گرد موجود افراد میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں کہ وہ اس لڑکے کو پکڑے۔

ایک محفل میں بیٹھے بات چیت ہو رہی تھی اور جیسے کہ پاکستان میں کوئی بھی محفل اس وقت تک ادھوری ہوتی ہے جب تک اس میں سیاست اور مذہب پر بات چیت سے زیادہ بحث نہ ہو۔

اسی طرح بات ہوتی ہوئی کرپشن کی جانب نکلی۔ ایک دوست، جس نے بہت زیادہ وقت برطانیہ میں گزارا ہے، وہ علیحدہ بات ہے کہ اس نے اس بات کا دعویٰ نہیں کیا کہ وہ مغرب کو سب سے بہتر جانتا ہے، نے کہا کہ کرپشن ہر ملک میں ہوتی ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ برطانیہ میں کرپشن نہیں تو صریحاً غلط بیانی ہو گی۔ ہاں وہاں کے لوگ کرپشن کرنے سے قبل ہزار بار سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ کرپشن تو کر لیں گے لیکن پکڑ ضرور ہو گی۔

شاید وہ ابھی نہ پکڑے جائیں دو سال بعد پکڑے جائیں لیکن ان کو یہ معلوم ہے کہ پکڑے ضرور جائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قانون کبھی کمزور نہیں ہوتا اس پر عمل درآمد کمزور ہوتا ہے اور اسی لیے ان ممالک میں کرپشن ہو یا ریپ یا جنسی ہراسانی، اقربا پروری ہو یا ٹریفک کی خلاف ورزی لوگ بے جھجھک کرتے چلے جاتے ہیں۔

کوئی معاشرہ مہذب نہیں ہوتا۔ معاشرہ مہذب بنتا ہے قانون اور آگاہی کے ذریعے۔ جن ممالک میں قانون سخت ہیں اور اس کی گرفت میں آنے میں دیر سویر ہو سکتی ہے لیکن آنا لازمی ہے اور اس معاشرے کو ہم مہذب مان لیتے ہیں۔

کیا وہاں کے مردوں کا لڑکی کو چھیڑنے کا جی نہیں چاہتا؟ کیا ان کی جنسی طاقت زور نہیں مارتی؟ بالکل جی چاہتا بھی ہے اور زور بھی مارتی ہے۔

لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ریپ، راہ چلتی لڑکی کو چھیڑنا، جنسی ہراسانی کے بارے میں معاشروں میں بات ہوتی ہے اور کھل کر بات ہوتی ہے۔

کبھی کوئی یہ نہیں کہتا کہ اس موضوع پر بات نہ کرو کیونکہ اس لڑکی نے ایسا لباس زیب تن کیا ہوا تھا، اس نے خود لوگوں کو بلایا ہوا تھا یا ملک کی بدنامی ہو گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ