ایچ آئی وی پھیلانے کے الزام میں گرفتار ڈاکٹر مظفر گھانگھرو کون ہیں؟

ڈاکٹر مظفر گھانگرو کئی برس سے رتوڈیرو سے گیارہ کلومیٹر کے فاصلے پر موجود علاقے میں  سرکاری ہسپتال کے انچارج ہیں اور شام کو رتوڈیرو میں نجی کلینک چلاتے ہیں۔

ڈاکٹر مظفر گھانگھرو نے کراچی کے سندھ میڈیکل کالج سے 2006 میں ایم بی بی ایس کیا اور بعد میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ  سے بچوں کے علاج کا ایک ڈپلومہ کیا(اے ایف پی)

سندھ کا شہر رتوڈیرو ان دنوں ایچ آئی وی کیسز کے باعث شہ سرخیوں میں ہے۔ 22 اپریل کو شہر کے ایک نجی ہسپتال میں آنے والے بچے کا خون جب ٹیسٹ کیا گیا تو اسے ایچ آئی وی پازٹیو تشخیص کیا گیا۔

جب اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے دوسرے مریضوں کے ٹیسٹ ہوئے تو بڑی تعداد میں ایچ آئی وی کے مزید کیسز سامنے آنے لگے۔ سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق بدھ تک رتوڈیرو میں 638 لوگوں میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہوچکی ہے جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔  جبکہ 16 ہزار سے زائد لوگوں کی سکریننگ کی جا چکی ہے۔

ایچ آئی وی کیسز کے متعلق مقامی میڈیا میں خبریں شائع ہونے کے بعد ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ کے حکم پر سندھ ہیلتھ کئیر کمیشن کی درخواست پر رتوڈیرو شہر میں نجی کلینک چلانے والے ڈاکٹر مظفرگھانگھرو کو پاکستان پینل کوڈ کی شق 324 اور 337-ایل کے تحت مقدمہ درج کرکے گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے انسانی جانوں کو قتل کرنے کے ارادے سے ایڈز پھیلانے کی کوشش کی۔ نیز یہ کہ انہوں نے یہ عمل دانستہ کیا تھا۔

ڈاکٹر گھانگھرو کے وکیل اطہر سولنگی کے مطابق، کلینک پر چھاپے کے وقت ڈی سی نے ڈاکٹر گھانگھرو کا بھی ٹیسٹ کروایا جو ایچ آئی وی مثنت آیا۔ وکیل کا کہنا ہے کہ انہیں اس ٹیسٹ پر بھروسہ نہیں ہے۔ 

ڈاکٹر مظفر گھانگھرو نے کراچی کے سندھ میڈیکل کالج (ایس ایم سی) سے 2006 میں ایم بی بی ایس کیا اور بعد میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ (این آئی سی ایچ) سے بچوں کے علاج کا ایک ڈپلومہ کیا۔

وہ کئی برس سے رتوڈیرو سے گیارہ کلومیٹر کے فاصلے پر موجود علاقے میں  سرکاری ہسپتال کے انچارج ہیں اور شام کو رتوڈیرو میں نجی کلینک چلاتے ہیں۔

2016 میں ڈاکٹر مظفر گھانگھرو ایک روڈ حادثے میں زخمی ہوگئے، علاج کے لیے انہیں کراچی کے ایک ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں علاج کے دوران انھیں خون منتقل کرنے کے ساتھ ان کی ایک ٹانگ بھی کاٹ دی گئی۔ اس وقت ان کی ایک ٹانگ مصنوعی ہے۔

خیال کیا جارہا ہے کہ وہ علاج کے دوران ایچ آئی وی کے وائرس سے متاثر ہوئے۔

حال ہی میں ان کی بیوی نے ذاتی رنجش کے باعث ان سے علیحدگی اختیار کرلی، ان کی ایک تین سال کی بیٹی بھی ہے۔ حالیہ دنوں ٹیسٹ کے بعد ان کی صاحب زادی کو ایچ آئی وی وائرس سے محفوظ قرار دیا گیا ہے۔

ڈاکٹر مظفر گھانگھرو کے وکیل اطہر سولنگی نے انڈپینڈنٹ اردو سے فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان پر لگائے گئے الزام میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

ان پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ مریضون کو ٹیکا لگانے سے پہلے انجیکشن خود کو لگاتے تھے اور بعد میں اسی سرنج سے مریضوں کو ٹیکا لگاتے تھے۔ انہوں نے کہا، ’جیسا کہ ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ جب ان کی کلینک پر چھاپہ مارا گیا تو وہ ایک ہی ڈرپ اور سرنج سے سب مریضوں کا علاج کررے تھے، مگر چھاپے کے دوران وہ ڈرپ یا ایجنکشن تحویل میں نہیں لیے گئے اور عدالت میں بھی ان پر لگائے گئے الزامات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔‘

ان کے وکیل اطہر سولنگی کا مزید کہنا تھا کہ ان پر مجرمانہ غفلت کا کیس درج کیا گیا، جو کیس سرے سے بنتا ہی نہیں ہے۔ اگر بنتا تو بھی میڈیکل غفلت کا بنتا جس کی زیادہ زیادہ سزا چھ ماہ ہے۔ مین ان کا کیس لڑ رہا ہوں اور امید ہے کہ وہ جلد ضمانت پر رہا ہوجائیں گے۔

چانڈکا میڈیکل کالج سے منسلک اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے کارکن ڈاکٹر عنایت مگسی کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹر مظفر گھانگھرو صاف کردار کے ایماندار ڈاکٹر ہیں اور ان پر آج تک کوئی پولیس کیس نہیں ہے اور نہ ہی کسی نے آج تک ان کے کردار پر کوئی سوال اٹھایا ہے۔ نجی کلینک پر ان کی فیس صرف 30 روپے تھی اور روزانہ ان کی کلینک پر ایک سو سے زائد مریض آتے تھے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان