خیبر پختونخوا: ’ہوم بیسڈ ورکرز‘ قانون  پر اعتراضات اور خدشات

خیبر پختونخوا میں ہوم بیسڈ ورکرز کا قانون رواں ماہ چار اگست کو منظور کیا گیا تھا جس کے بعد خیبر پختونخوا پاکستان کا تیسرا صوبہ ہے جہاں گھر سے ملازمت کرنے والے ہنرمند افراد کے تحفظ کے لیے کوئی قانون موجود ہے۔

صوبے کی کاروباری خواتین کا کہنا ہے کہ متعلقہ قانون میں رجسٹریشن کا نکتہ شامل کرنے سے وہ حکومتی مقاصد حاصل نہیں ہو سکیں گے جس کے لیے یہ قانون بنایا جارہا ہے(اے ایف پی)

خیبر پختونخوا اسمبلی میں گھر سے ملازمت کرنے والے ہنر مند مرد وخواتین کے تحفظ وبہبود کے لیے چار اگست کو منظور ہونے والے قانون پر صوبے کی کاروباری خواتین نے اعتراضات و خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون خواتین کو ٹیکس نظام میں لانے کا ایک حربہ اور بین الاقوامی سطح پر ملک کا اچھا تاثر دینے کے لیے خانہ پری کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہے۔

صوبے کی کاروباری خواتین کا کہنا ہے کہ متعلقہ قانون میں رجسٹریشن کا نکتہ شامل کرنے سے وہ حکومتی مقاصد حاصل نہیں ہو سکیں گے جس کے لیے یہ قانون بنایا جارہا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں کاروباری خواتین رسم ورواج و دیگر معاشرتی مسائل کی وجہ سے پہلے ہی ملازمت اور کاروبار کی جانب راغب نہیں ہوتیں، تاہم اگر بادل ناخواستہ ایسا ہو بھی جائے تو مختلف وجوہات کی بنا پر انہیں وہ منافع نہیں ملتا جس سے وہ بھاری بھر کم ٹیکس اور دیگر کٹوتیوں کا بوجھ سہہ سکیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے پشاور کی ایک کاروباری خاتون چاند بی بی نے کہا ’رجسٹریشن اور ٹیکس کی ادائیگی غلط نہیں ہے لیکن میرے کاروباری حلقے میں اکثریتی خواتین اس سے کتراتی ہیں۔انہیں معلوم ہے کہ یہاں چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو بھی کتنا تنگ کیاجاتا ہے۔ اور یہ بھی کہ خواتین کے لیے کوئی خاص چھوٹ یا رعایت بھی نہیں ہے۔‘

چاند بی بی نے کہا کہ رجسٹریشن ہوتے ہی خیبر پختونخوا ریوینیو اتھارٹی (کیپرا)، لیبر ڈیپارٹمنٹ اور دیگر ادارے کاروباری خواتین و حضرات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جو چھوٹے بڑے تمام کاروباری خواتین وحضرات کے لیے ایک ہی پیمانہ رکھتے ہیں۔

’اکثر پاکستان میں مغربی ممالک کے ٹیکس نظام کی مثالیں تو دی جاتی ہیں لیکن یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہاں تنخواہیں ٹیکس  کٹوتی کے مطابق دی جاتی ہیں، اور کاروبار کرنے والے افراد کے لیے اتنی مراعات ہوتی ہیں کہ وہ بخوشی رجسٹریشن کرکے ٹیکس نیٹ میں شامل ہوجاتے ہیں۔  ایسا نظام نافذ ہو، تب ہی اس قانون کو فائدہ مند کہا جاسکتا ہے۔‘

چاند بی بی نے کہا کہ اگر ہوم بیسڈ ورکرز کا قانون کامیاب بنانا ہے اور خواتین کی رجسٹریشن کروا کر نہ صرف انہیں مراعات دینی ہیں بلکہ انہیں ٹیکس نظام میں بھی شامل کرنا ہے تو حکومت کو مراعات دینی چاہیے۔

’جب مراعات دی جائیں گی۔ خواتین کو گرانٹس دی جائیں گی، بغیر سود کے آسان شرائط پر قرضے دیے جائیں گے، انہیں کم منافع پر ٹیکس میں کمی یا چھوٹ دی جائے گی۔ بجلی بلوں اور ملازمین کی تعداد زیادہ ہونے پر ان سے کمرشل بل نہیں لیے جائیں گےتو کچھ عجب نہیں کہ خواتین کاروبار کی طرف راغب ہوں گی۔ بلکہ یہی مراعات انہیں رجسٹریشن اور بینک اکاؤنٹس بنانے اور ٹیکس دینے پر بھی آمادہ کریں گی۔‘

مہمند سے تعلق رکھنے والی ایک ہوم بیسڈ ورکر فہمیدہ گل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہوم بیسڈ ورکرز کے لیے قانون بنانے کا اقدام خوش آئند ہے لیکن اس میں مراعات کے حوالے سے کچھ زیادہ تفصیل نہیں ملتی۔

انہوں نے کہا کہ ’کئی خواتین جو کہ رسم ورواج کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں نکل سکتیں اور بمشکل گھر سے کاروبار چلاتی ہیں ان کے بارے میں معلومات ہوتے ہی ٹیکس لینے والے حکام انہیں تنگ کرنے پہنچ جاتے ہیں۔‘

پشاور کی ایک ہوم بیسڈورکر ماریہ خان کا کہنا ہے کہ گھروں سے کام کرنے والی خواتین کو یا تو ٹیکس سے چند سالوں کے لیے چھوٹ دینی چاہیے اور یا ان پر بہت کم ٹیکس لاگو کرناچاہیے۔

’ضرورت اس امر کی ہے کہ جس وقت پالیسی بن رہی ہو، بل کے رولز بن رہے ہوں اسی شعبے کے ان افراد کو اعتماد میں لیا جائے جن کے لیے قانون بنایا جارہا ہے۔ لیکن عموماً ایسا نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے قوانین میں موجود خامیاں حقیقی مسائل کے حل میں مشکلات پیدا کرتی ہیں۔‘

کاروباری حلقے کی خواتین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہوم بیسڈ ورکرز کے لیے کوئی قانون تب تک موثر ثابت نہیں ہو سکتا جب تک ان کو مراعات نہ دی جائیں۔

ان خواتین کے اعتراضات اور خدشات کے حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے وزیر محنت وثقافت شوکت یوسفزی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اس قانون کے ذریعے ہوم بیسڈ ورکرز کو اب وہی مراعات ملیں گی جو سرکاری ریگولر ملازمین کو ملتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

‘رجسٹریشن اس لیے ضروری ہے کہ ان کی پہچان ہو سکے۔ مراعات وہی ملیں گی جو دوسرے سرکاری ملازمین کی ہیں۔‘

ٹیکس سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا ’ہر کسی کے کام کی نوعیت ایک جیسی نہیں ہوتی۔ ہوم بیسڈ ورکرز میں ایسے بھی ہیں جو کئی ملازم بھی رکھتے ہیں۔ ملازم رکھنے کامطلب یہ ہے ان کو منافع ہورہا ہے۔ ایسے میں ٹیکس دینا بھی لازمی ہو جاتا ہے۔‘

شوکت یوسفزی نے بتایا کہ ’ہوم بیسڈ ورکرز بل 2021‘ کے  رولز ابھی نہیں بنے ہیں ، تاہم اس حوالے سے  شعور پھیلانے پر بہت جلد کام شروع کیا جائےگا، تاکہ ہر خاص وعام کو اس قانون کی افادیت، ضرورت، اہمیت اور دوسری تفصیلات کا علم ہو جائے۔

پس منظر

خیبر پختونخوا میں ہوم بیسڈ ورکرز کا قانون رواں ماہ چار اگست کو گیارہ سال کی جدوجہد کے بعد منظور کیا گیا تھا، جس کے بعد خیبر پختونخوا صوبہ سندھ اور صوبہ پنجاب کے بعد پاکستان کا تیسرا صوبہ ہے جہاں گھر سے ملازمت کرنے والے ہنرمند افراد کے تحفظ و بہبود کے لیے کوئی قانون موجود ہے جب کہ  بلوچستان میں ابھی تک یہ قانون نہیں بنا ہے۔

اس بل کی تفصیلات کے مطابق، وہ تمام ہنر مند افراد جو گھروں سے اپنے ہنر کو مستقل روزگار کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں، اور جو کسی ایک مالک کے لیے کام کرتے ہیں یا کسی انڈسٹری کے لیے اور یا خود ہی اس کے مالک ہیں، کو  رجسٹر کروا کر وہی مراعات دی جائیں گی جو سرکاری ملازمین کو حاصل ہیں۔ان مراعات میں سوشل، میڈیکل، اور میٹرنٹی فوائد شامل ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان