کیا اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ مل کر سازش کی؟

15 اگست کو سقوط کابل نہیں ہوا بلکہ اشرف غنی اور حقانی گروپ کے درمیان ہونے والی سازباز کے نتیجے میں اس کی قربانی دی گئی۔

16 اگست، 2021 کو  دو افغان شہری کابل ایئرپورٹ کے باہر سابق صدر اشرف غنی کے پھٹے ہوئے پوسٹر کے قریب کھڑے ہیں (اے ایف پی)

اتوار، 15 اگست کی صبح افغان صدر کے تقریباً 200 خصوصی محافظ  وزارت دفاع پہنچے۔ وہ اشرف غنی کے دورے کے انتظامات کے سلسلے میں وہاں گئے تھے۔

کچھ عرصہ قبل اس وقت کے افغان وزیر دفاع جنرل بسم اللہ محمدی کو بتایا گیا تھا کہ اشرف غنی بات چیت کے لیے وزارت کا دورہ کرنا چاہتے ہیں۔

ایک رات پہلے اشرف غنی نے عمائدین کے ایک گروپ اور اپنی کابینہ کے وزرا سے صدارتی محل میں ملاقات کی تھی۔

اجلاس میں موجود لوگوں کے مطابق اشرف غنی سے کہا گیا کہ طالبان تیزی سے پیش قدمی کر رہے ہیں اور انہوں نے ان (اشرف غنی) کے ساتھ مذاکرات سے انکار کر دیا ہے لہٰذا وہ کچھ کریں۔

اشرف غنی نے عہدے سے مستعفی ہونے اور ایک مذاکراتی وفد قطر بھیجنے کا وعدہ کیا، جو عبوری انتظامیہ کے قیام کے لیے طالبان سے بات کر سکے۔

طالبان کو پیغام موصول ہوا اور وہ پیر کو کابل سے ایک وفد کے دوحہ پہنچنے کا انتظار کرنے لگے۔ وہ افغانستان کی اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور سابق صدر حامد کرزئی کے ساتھ نئی حکومت کے قیام پر تبادلہ خیال کرنے جا رہے تھے۔

تاہم اتوار کو ایک اور واقعہ پیش آیا۔ اشرف غنی کے خصوصی محافظوں میں سے ایک نے جنرل محمدی سے رابطہ کیا اور بتایا کہ اشرف غنی نے تقریباً 15 منٹ پہلے قریبی ساتھیوں کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر صدارتی محل چھوڑ دیا ہے۔

اشرف غنی کے وزارت دفاع کے دورے کی کہانی ہمیشہ سے ایک چال تھی۔ صدارتی محافظوں کو خاصی تعداد میں وزارت میں پہنچا دیا گیا جبکہ ایک تجربہ کار پنج شیر کے جنرل محمدی، جنہوں نے احمد شاہ مسعود کے ساتھ مل کر کئی سال تک جنگ کی، ان کی توجہ بھی دوسری جانب مرکوز رکھی گئی۔

بسم اللہ محمدی کہتے ہیں کہ ’جیسے ہی مجھے پیغام ملا میں نے وزارت دفاع کی کھڑکی سے صدارتی محل کی طرف دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ مسلح افراد سے بھری گاڑیوں کا ایک قافلہ اس راستے پر صدارتی محل کی طرف جا رہا تھا، جو محل کو وزارت سے ملاتا ہے۔ (ایک دوسرے کے سامنے واقع عمارتوں کو ایک تنگ راستہ آپس میں ملاتا ہے۔)

محمدی کے اندازے کے مطابق 50 سے 60 گاڑیاں صدارتی محل کے اندر چلتی ہوئی دیکھی گئیں۔ اشرف غنی کے جانے کے بعد صدارتی محل آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت میں اس گروپ کے قبضے میں چلا گیا جس کے بارے میں اب ہم جانتے ہیں کہ اس کا تعلق حقانی گروپ سے تھا۔

حقانی گروپ کے جنگجو دارالحکومت سے باہر اپنے ٹھکانوں سے اتنی جلدی کابل کیسے پہنچ سکتے ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ وہ صدارتی محل کے اندر اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے اور انہوں نے شہر میں پہلے سے ہی اپنے ٹھکانے بنا رکھے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے پہلے کہ وزیر دفاع صدارتی دفتر کا دفاع کرنے کے قابل ہوتے وہ (عسکریت پسند) محل پہنچ گئے تھے۔

اچانک حملہ اس شبے کو جنم دیتا ہے کہ اشرف غنی اور حقانی گروپ، جو ایک ہی پشتون قبائلی اتحاد قلجائی سے تعلق رکھتے ہیں، مل کر سازش کر رہے تھے۔

اشرف غنی کے فرار کے بدلے میں صدارتی محل طالبان کے حوالے کر دیا گیا۔ وہ شخص جو طالبان کے کنٹرول کو روک سکتے تھے یعنی وزیر دفاع، انہیں اس تمام معاملے سے دور رکھا گیا۔

خصوصی محافظوں میں سے بعض نے جنرل محمدی کو بتایا کہ جب محافظوں نے اشرف غنی اور دیگر افراد جیسے کہ حمد اللہ محب (قومی سلامتی کونسل کے سربراہ) کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے صدارتی محل سے نکلنے سے روکنے کی کوشش کی تو سابق صدر کی حامی سکیورٹی فورسز نے ان کی طرف ڈالروں سے بھرے بیگ اچھال کر ان کی توجہ دوسری طرف کر دی۔

اس طرح جب وہ لوگ نوٹ گننے میں مصروف ہوگئے تو غنی ملک سے فرار ہوگئے۔

اشرف غنی اور ان کے قریبی لوگوں نے حقانی گروپ کے ساتھ مل کر نہ صرف افغانستان اور دنیا بلکہ دوحہ میں موجود مذاکراتی وفد کو چونکا دیا۔

وفد کا ماننا تھا کہ وہ اقتدار پر قبضے کے راستے پر گامزن ہیں یعنی وہ طالبان اور سابق صدر حامد کرزئی کے قریب ہیں۔

بہت سے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اشرف غنی کے اقتدار کے آخری سالوں میں قلجائیوں اور درانیوں کی لڑائی کی وجہ سے خرابی پیدا ہوئی۔

غنی اور کرزئی کے درمیان یہ تصادم اقتدار کے لیے اس شدید لسانی تگ و دو کا حصہ ہے جس کا مطلب ہے کہ اگرچہ غنی، کرزئی کی حمایت سے اقتدار میں آئے لیکن کرزئی انہیں کمزور کرنے کی کوشش کریں گے۔

کرزئی کی سربراہی میں عبوری حکومت کے قیام کے خیال کی جڑیں بھی پشتونوں کے درمیان قبائلی کشمکش ہے۔

قلجائیوں اور درانیوں کے دو بڑے قبائلی اتحاد طویل عرصے سے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ ان کی اقتدار کے لیے جدوجہد افغانستان کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔

کابل اب حقانیوں کے کنٹرول میں ہے۔ اس دھڑے کا سیاسی حصہ عسکریت پسندوں پر مشتمل ہے، جنہیں جیل سے رہا کیا گیا۔ اس گروپ کی طرف سے دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں اور امریکہ کے خلاف جنگ کے احکامات بھی حقانی طالبان نے جاری کیے۔

موجودہ تنظیم میں سراج الدین حقانی اخوندزادہ کے نائب ہیں۔ یہ سمجھنا احمقانہ ہو گا کہ امریکہ کو ان لوگوں کے منظر یا کابل میں ان کی موجودگی کا علم نہیں۔

اس طرح ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ طالبان کی قیادت بھی درانیوں اور قلجائیوں کے درمیان نسلی اور قبائلی تنازعات میں گھری ہوئی ہے اور یہ کشیدگی چیلنجوں اور بڑھتی ہوئی دشمنیوں میں اضافہ کر سکتی ہے۔

افغانستان میں پچھلے دنوں کے واقعات اور اشرف غنی کا بے وقت فرار ہمیں بتاتے ہیں کہ انہوں نے اقتدار کو اپنے قبائلی اتحاد کے لوگوں یعنی قلجائی پکتیائیوں کو منتقل کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔

اپنے قبائلی اتحاد کے سربراہوں کے ساتھ سازش کرتے ہوئے انہوں نے عوام اور اپنی حکومت کو دھوکہ دیا تاکہ اقتدار قبائلی اتحاد کے پاس جائے۔

وہ لوگ جو اس دن صدارتی محل میں تھے یعنی خصوصی صدارتی محافظ، وہ بتاتے ہیں کہ خوف کی وجہ سے وہ صرف اتنا کرسکے کہ انہوں نے کپڑے تبدیل کیے، ہتھیار نیچے رکھے اور فرار ہوگئے۔

15 اگست کو سقوط کابل نہیں ہوا بلکہ اشرف غنی اور حقانی گروپ کے درمیان ہونے والی سازباز کے نتیجے میں اس کی قربانی دی گئی۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا