کیا اب الیکشن کمیشن کی باری ہے؟

ببانگ دہل الیکشن کمیشن کے خلاف بظاہر مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس کے ممبران کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو سکتا ہے جو بعض ججوں، صحافیوں، بیوروکریٹس، تمام مخالف سیاست دانوں وغیرہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔

یہ صرف قائمہ کمیٹی میں گرما گرمی کے ماحول میں نہیں کہا گیا، بعد میں ڈٹ کر پریس کانفرنس کی گئی(پی آئی ڈی)

آہستہ آہستہ تمام اداروں کو تجربہ ہو رہا ہے کہ جب وہ کسی اصولی معاملے پر طاقتور سے اختلاف کرتے ہیں تو پاداش میں ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔

جج صاحبان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ و خاندان پر گزرنے والی کیفیت کے ذریعے یہ جان لیا کہ ملک کے معتبر ترین اور آئینی تحفظ کے گھیرے میں رہنے والے بھی نظام سے ٹکر لینے کی کیا قیمت ادا کرسکتے ہیں۔

فواد حسن فواد اور احد چیمہ بیوروکریسی کے لیے مثال ہیں کہ آپ کا تمام کیریئر بہترین صلاحیت اور صاف ستھرا ریکارڈ آپ کو مخالفین کے ساتھ دیکھے جانے کی سزا سے نہیں بچا سکتا۔ میڈیا میں سزا پانے والوں کی فہرست لمبی ہے۔ نام جاننا ضروری نہیں۔

محض نتیجے کو ذہن میں رکھیں۔ جو تنقید کے لیے منہ کھولے گا اس کی زندگی اجیرن کر دی جائے گی۔ بعض کاروباری طبقات بھی ان سختیوں سے نہیں بچے۔ اگرچہ ان پر وہ مشکلات طاری نہیں ہوئیں جو دوسرے طبقات پر سختی سے لاگو کی گئیں، کیوں کہ حکومت کو معیشت کی گراوٹ کو روکنے کے لیے پیسے والوں کی ضرورت ہے۔ اگر یہ مجبوری نہ ہوتی تو اس شعبے میں سے بھی چُن چُن کر لوگوں کو پکڑا اور الٹا لٹکایا جاتا۔ اب باری الیکشن کمیشن کی ہے۔

چیختی چلاتی سرخیاں آپ کو اس غصے کے شواہد فراہم کرتی ہیں جو طاقتور ادارے اس کے ممبران پر نکال رہے ہیں۔ جلانے کی دھمکی پکڑنے کے الزام کے سامنے ماند پڑ جاتی ہے۔ جب کوئی آگ لگانے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے تو وہ اپنی جھنجھلاہٹ اور بڑھتی ہوئی پریشانی کا اظہار کر رہا ہوتا ہے۔

رشوت لے کر پالیسی بنانے کا الزام کوئی عام بات نہیں۔ عملاً کہا یہ جا رہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن کے حق میں پالیسیاں بنانے کا دھندہ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے الزام لگانے والوں نے یہ جملہ ویسے ہی نہیں کہہ دیا ہو گا، اپنی طرف سے کچھ مقدمہ خلوت میں بنا کر اس کو جلوہ گر کیا گیا ہے۔

اور یہ صرف قائمہ کمیٹی میں گرما گرمی کے ماحول میں نہیں کہا گیا، بعد میں ڈٹ کر پریس کانفرنس کی گئی جس میں چیف الیکشن کمشنر کے نواز شریف کے ساتھ قریبی رابطوں کے الزامات دہرائے گئے۔ یعنی زبان نہیں پھسلی نہ ہی کوئی ندامت ہوئی۔

اس کے برعکس اس یقین کو نظریے میں بدل دیا کہ چیف الیکشن کمشنر کے معاملات ایسے ہی ہیں۔ یہ الزام تراشی اور اس کو بار بار دہرانے کے عمل سے ظاہر ہے کہ اس کو اعلیٰ ترین قیادت کی آشیرباد حاصل ہے۔ ورنہ اعظم سواتی جو بڑھتے ہوئے ٹرینوں کے حادثات میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا کی آہوں اور سسکیوں کی طرح بے اثر وزیر ہیں اور بہت کم اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ یکدم بھادوں کی بارش کی طرح کیسے برس سکتے ہیں؟

ایک حکم تھا جس کی تعمیل کرنا فرض ہوا اور پھر جب برابر میں بابر اعوان و فواد چوہدری بیٹھے ہوں تو سمجھنے میں دقت نہیں ہونی چاہیے کہ یہ الزامات کس سنجیدگی سے لگائے گئے ہیں اور آنے والے دنوں میں الیکشن کمیشن کے گھیراؤ اور جلاؤ والی پالیسی کیسے اپنی جڑیں مزید گہری کرے گی۔

ویسے یہ بھی کیا تاریخی ستم ظریفی ہے کہ الیکشن کمیشن جو ہمیشہ سے نازک انتخابی موڑ پر حاضر اور باادب نظر آتا رہا، اب شفافیت اور اصول پسندی کا محور سمجھا جانے لگا ہے۔

بہت سے حلقے حیرت زدہ ہیں کہ ماضی میں بہت سے کام اسی ادارے سے کروا لیے گئے، مگر ہلکے پھلکے اعتراضات کے علاوہ کوئی بڑا ردعمل سامنے نہیں آیا۔ 2018 کے انتخابات کو ہی لے لیجیے۔ کیا کچھ نہیں ہوا؟ کیا کچھ کیا، کہا، سنا اور دیکھا نہیں گیا؟ کیا انتخاب کروانے والوں نے کوئی اعتراض کیا؟ کسی کی گردن پکڑی؟ کسی کو سزا دی؟ کوئی اپنا وائٹ پیپر نکالا؟ بالکل نہیں۔ سب کچھ آسانی سے ہضم کرلیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب جن کے ہاضمے ایسے پکے ہوں ان سے لڑائی کرکے کام نکلوانے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر شاید حالات بدل گئے ہیں۔ پرانے طریقہ کار سے اب کام کروایا نہیں جا سکتا۔ احتجاج نہ ہونے کے باوجود انتخابی دو نمبریوں کی داستانیں بہرحال کوچے کوچے پھیل جاتی ہیں۔

لوگوں کے نام لیے جاتے ہیں اور عہدوں کے احترام ملحوظ خاطر رکھے بغیر سڑکوں میں، گلیوں میں، بازاروں میں انتخابات چرائے جانے کا قصہ بیان ہونے لگتا ہے۔ اس کے علاوہ اس ڈیجیٹل دور میں پرانی واردات پکڑے جانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

سیالکوٹ میں روایتی ہتھکنڈوں کے ذریعے نتائج پلٹانے پر جو سبکی اٹھانی پڑی اس نے انتخابات پر اثر انداز ہونے کے سائنسی طریقوں کو مزید ناگزیر کر دیا، لہذا الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور طارق ملک کی قائدانہ صلاحیتوں تلے نادرا کو بروئے کار لانے پر کافی غور و خوض ہوا۔

طے یہ کیا گیا کہ اس مرتبہ جو بھی کرنا ہے کریں گے لیکن الزامات نہیں لگنے چاہیں۔ گلی کوچوں میں ہونے والی زبان دراز گفتگو کو ہونے سے پہلے ہی روکنے کا بندوبست کرنا ہوگا۔ شفافیت کا بھرم جو ہر چرائے ہوئے انتخاب کے بعد بھسم ہو جاتا ہے کسی نہ کسی طرح قائم رکھنا ہوگا۔

ٹیکنالوجی سے متاثر مغربی ممالک کو رام کرنے کے لیے کچھ ایسا کرنا ہوگا کہ چناؤ کی چوری کے الزام سانپ بھی مر جائے اور استعمال کی گئی لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اب اتنی لمبی چوڑی پلاننگ میں بھلا مشینوں پر الیکشن کمیشن کے 37 اعتراضات کی گنجائش کہاں بنتی ہے؟

مشینوں سے بڑے بڑے کام کروانے ہیں۔ اس میں چھوٹی چھوٹی مشکلات کھڑی کروانے والا الیکشن کمیشن کیسے برداشت ہوسکتا ہے؟ لہذا اب الیکشن کمیشن کی باری ہے۔ وہ سب کچھ  سہنے کی جو ملک کے تقریباً ہر ادارے میں اصول کی بات کرنے والے نے بھگتا ہے۔

ببانگ دہل الیکشن کمیشن کے خلاف مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس کے ممبران کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو سکتا ہے جو بعض ججوں، بعض صحافیوں، بعض بیوروکریٹس، تمام مخالف سیاست دانوں وغیرہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔  چیف الیکشن کمشنر کو متنازعہ ثابت کرنے کی اس سرتوڑ کوشش کا ایک ممکنہ نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ غیرملکی فنڈنگ کیس کے فیصلے کو نہ ماننے کی ایک بنیاد پہلے سے تیار کرلی جائے۔

اس سارے معاملے پر خبروں کے مطابق چیف الیکشن کمشنر بہت برہم ہیں اور اب ایک اجلاس میں اس ادارے کا موقف سامنے لانے پر غور ہوگا۔ دیکھیں اس تنازعے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اور یہ نتیجہ اس سے کتنا مختلف ہوگا جو دوسرے اداروں کے نمائندگان کے خلاف پروپیگنڈا کے نتیجے میں نکلا ہے، یعنی مزید فساد، مزید لڑائی، مزید افراتفری۔

لگتا ہے کہ ہم صرف افغانستان کو پر امن بنانا چاہتے ہیں، پاکستان کو ویسے ہی چلانا ہے، جیسے اب تک چلایا گیا ہے۔


نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے۔ ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ