واشنگٹن سے دبئی تک پاکستانی ’ڈسکو تیندوے‘ کے چرچے

بیرون ملک مقیم پاکستانی اور غیر ملکی ٹیکسلا شہر کے جی ٹی روڈ پر بکنے والے یہ ڈسکو تیندوے بہت شوق سے لے جاتے ہیں۔

قدیم گندھارہ تہذیب کا مرکز ٹیکسلا شہر اپنے 25 مربع میل پر پھیلے آثار قدیمہ کی بدولت پاکستان میں سیاحوں کے پسندیدہ مقامات میں سے ایک ہے۔

بدھ مت کی درس گاہوں کے نقوش اور یونانی بستیاں یہاں ایسے حسین امتزاج میں موجود ہیں جو گذشتہ صدی کے وسط سے یہاں جاری ماہر آثار قدیمہ کی تلاش میں دریافت ہوئی ہیں۔

تاہم یہ علاقہ ایک اور پاکستانی خزانے کا بھی مسکن ہے جسے ’ڈسکو تیندوے‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ٹیکسلا کی ان تاریخی یادگاروں سے کچھ دور ہی گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ گزر رہی ہے جہاں سڑک کنارے سجی کئی دکانوں پر چھوٹے چھوٹے شیشوں اور ڈسکو بالز سے مزین ڈسکو تیندوے رکھے ہوئے ہیں۔

عرب نیوز کے مطابق یہ یہاں سب سے زیادہ بکنے والی شے ہے اور اس کے خریداروں میں بیرون ملک مقیم پاکستانی اور سفارت کار شامل ہیں۔

آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے ڈیویلپمنٹ سپیشلسٹ کرس منچ کہتے ہیں ’یہ گوروں کی روایت‘ ہے کہ وہ پاکستان میں یہ تیندوے خریدتے ہیں اور پھر اسے اپنے ساتھ واپس اپنے ملک یا وہاں لے جاتے ہیں جہاں ان کی ملازمت انہیں لے جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کرس منچ 2017 سے 2019 تک پاکستان میں رہے اور ان کے پاس بھی دو ڈسکو تیندوے ہیں۔

ڈسکو تیندوا سب سے پہلے ٹیکسلا میں اس وقت سامنے آیا جب ایک آرٹسٹ ملک اشفاق نے اپنی زندگی بھر کے شوق کو پیشہ بنانے کا فیصلہ کیا۔

ملک اشفاق کا کہنا ہے کہ ’مجھے ہمیشہ سے ہی یہ کام کر کے مزہ آتا تھا اور ایک دن میں نے مقامی طور پر تیار کردہ شاہکار بنانے کی ٹھانی اور اسے کاروباری مقاصد کے لیے سجانے کا فیصلہ کیا۔‘

ملک اشفاق کے مطابق اب یہ تیندوے پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں اور یہ متحدہ عرب امارات سے لے کر امریکہ تک موجود ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا