70 برس میں کیتھولک پادریوں کی لاکھوں بچوں سے ’زیادتی‘

فرانس سے جاری کردہ تقریباً ڈھائی سو صفحات پر مشتمل رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنسی بدسلوکی کا نشانہ بنانے والوں کی بڑی اکثریت نابالغ لڑکوں کی ہے جن کا تعلق وسیع اور مختلف سماجی پس منظر کے ساتھ ہے۔

فرانس میں ہونے والی تحقیقات کے مطابق  1950 سے 2020 تک کیتھولک پادریوں اور دوسرے عہدے داروں نے مبینہ طور پر دو لاکھ 16 ہزار بچوں کو جنسی بدسلوکی کا نشانہ بنایا۔

’یہ ایک بڑی حقیقت ہے جسے دہائیوں تک خاموشی کے پردے میں چھپایا گیا۔‘ 

یہ تحقیقاتی رپورٹ ڈھائی سال تک جاری رہنے والی چھان بین کے بعد منگل کو جاری کی گئی۔

دنیا بھر میں جنسی بدسلوکی کے متعدد دعوؤں پر بڑے پیمانے میں پائے جانے والے اشتعال اور چرچ حکام کے خلاف قانونی کارروائی کے بعد یہ رپورٹ جاری ہوئی ہے۔

گرجا گھروں کے عام ارکان جیسے کیتھولک سکولوں کے اساتذہ کو شامل کیے جانے کی صورت میں جنسی بدسلوکی سے متاثرہ بچوں کی تعداد 70 سال کے عرصے میں تین لاکھ 30 ہزار تک جا پہنچتی ہے۔ 

تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ ژاں مارک سواؤ نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ’یہ اعدادوشمار پریشان کن حد سے بڑھ کر ہیں۔ ان سے برائی ظاہر ہوتی ہے اور ایک طرح سے ان کا کوئی جواب نہیں دیا جا سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 2000 کے اوائل تک کیتھولک چرچ نے متاثرہ بچوں کے معاملے میں مکمل بلکہ ظالمانہ لاتعلقی کا اظہار کیا۔ آرچ بشپ اور تحقیقاتی رپورٹ کی درخواست کرنے والوں میں شامل تنظیم بشپس کانفرنس آف فرانس (سی ای ایف) کے صدر ایرک ڈی مولنزبوفور نے تحقیقات کے نتائج پر شرمندگی اور خوف کا اظہار کیا ہے۔ پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ’میری خواہش کہ میں آج آپ میں سے ہر ایک سے معافی مانگوں۔‘

سواؤ نے پادریوں کو جنسی بدسلوکی کے دعووں سے بچانے کے لیے’منظم انداز‘میں کی جانے والی کوششوں کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے چرچ پر زور دیا ہے کہ اگرچہ بہت سے کیسوں میں قانونی کارروائی نہیں کی جا سکتی لیکن پھر بھی متاثرین کو معاوضہ دیا جائے۔

تقریباً ڈھائی سو صفحات پر مشتمل رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنسی بدسلوکی کا نشانہ بنانے والوں کی بڑی اکثریت نابالغ لڑکوں کی ہے جن کا تعلق وسیع اور مختلف سماجی پس منظر کے ساتھ ہے۔ رپورٹ کے مطابق خاندان اور دوستوں کے حلقے کے بعد چرچ وہ جگہ ہے جہاں سے سب سے زیادہ جنسی تشدد پایا جاتا ہے

ادارہ جاتی شناخت

سواؤ اتوار کو پہلے ہی اے ایف پی کو بتا چکے ہیں کہ 1950 سے فرانس کے گرجا گھروں میں بچوں سے جنسی بدسلوکی کرنے والے کم از کم 2900 سے 3200 افراد سرگرم رہے ہیں۔ اس کے باوجود قانونی کارروائی سے قطع نظر چرچ کے اپنے قانون کے تحت صرف چند ہی کیسز میں کارروائی کی گئی۔

متاثرین کی تنظیم کے سربراہ فرانسوادیوو نےاس’انحرافی نظام‘کی مذمت کی ہے جس کے تحت پوپ فرانسس کی سربراہی میں نئی’ویٹی کن تھری‘کونسل کا جامع جواب ضروری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

منگل کو پریس کانفرنس میں دیوو کے بقول ’آپ نے بالآخر تمام تر چرچ کی ذمہ داریوں کے متاثرین کو ادارہ جاتی شناخت دے دی ہے۔ یہ ایسا کام ہے جسے پادری اور پوپ ابھی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘

متاثرین کے بارے میں تخمینوں کی زیادہ تر بنیاد صحت اور طب کے شعبے میں تحقیق کرنے والے فرانس کے ادارے’ان سرم‘کی جانب کی جانے والی ایک نمائندہ تحقیق پر ہے جو اعدادوشمار کے مطابق تقریباً 50 ہزار یا اس سے کم لوگوں پر کی گئی ہے۔

سواو اور ان کی 21  ماہرین پر مشتمل ٹیم جس میں سے کسی کا چرچ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، نے ان سینکڑوں لوگوں کے انٹٓرویو کیے جو اپنی کہانی سنانے کے لیے آگے آئے۔ سواو نے اپنی رپورٹ میں لکھا: ’اگر حقائق کو چھپانے والے خاموشی کے پردے کو بالآخر چاک کر دیا جائے تو ہم ان متاثرین کے حوصلے کے مقررض ہوں گے۔ ان کی گواہی کے بغیر ہمارا معاشرہ بے خبر رہے گا یا جو کچھ ہوا اسے تسلیم نہیں کرے گا۔

تحقیقاتی کمیشن کو پولیس کی فائلوں اور چرچ کی دستاویزات تک رسائی بھی حاصل تھی۔ کمیشن کے مطابق صرف دو کیسوں میں گرجا گھروں نے مانگی گئی دستاویزات حوالے کرنے سے انکار کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا