جب ہندو بھی کُچلے جائیں گے

اب صرف کسان ہی نہیں بلکہ بھارت کی آبادی کے 95 فیصد حصے کو عنقریب کچلے جانے کا اندیشہ ہے جو بدقسمتی سے اونچی ذات سے نہیں۔

ایک غیر ملکی سیاح نومبر 2018 کو سری نگر میں موسم خزاں کے دوران نشاط گارڈن میں چنار کے پتوں میں سمارٹ فون کے ذریعے ویڈیو ریکارڈ کر رہی ہیں۔ بھارت میں بعض وائرل ویڈیوز کی بازگشت اب پورے ملک میں سنائی دینے لگی ہے اور اس کی زد میں ہر کوئی بغیر کسی مذہب و ملت کے آنے لگا ہے ( اے ایف پی)

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 


یاد کیجیے جب نو اپریل، 2017 کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ضمنی انتخابات کے دوران بڈگام کے فاروق احمد ڈار کو میجر لیتل گوگوئی نے فوجی گاڑی کے بونٹ سے باندھ کر آس پاس کے علاقوں میں گھمایا تھا۔

اس شخص نے بھارتی آئین کے تحت ہونے والے انتخابات میں ووٹ ڈال کر جمہوریت پر اپنا اعتماد جتانے کی کوشش کی تھی تو جواب میں ویڈیو کو ہندوستان کی اکثریت نے سوشل میڈیا پر دیکھا تھا۔

بھارتی فوج نے فاروق ڈار کو سنگ باز قرار دے کر یہ سزا دی تھی مگر انہوں نے خود کو انتخابی ووٹر بتا کر علاقے میں بھی خود کو تنہا کر دیا تھا جو بھارتی انتخابات کے خلاف ہڑتال پر تھا۔

اکثر کشمیریوں نے چیخ چیخ کر بھارت کی ایک ارب آبادی کو اس وقت آواز دی تھی کہ فاروق ڈار کے ساتھ ہونے والی ذلت کا سامنا وقت آنے پر شاید ایک دن آپ کو بھی کرنا پڑے گا مگر کسی نے ان کی بات پر توجہ نہیں دی۔

اگست میں سری نگر میں محرم کے جلوس کے دوران ایک نوجوان سکیورٹی کی گاڑی کے نیچے آ کر تڑپتا رہا۔ جب عزا داروں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس حرکت میں آئی تو مبینہ طور پر صحافیوں سمیت درجنوں افراد کی مار پیٹ کر ڈالی۔

کشمیری صحافیوں نے بھارت کے میڈیا سے وابستہ ہزاروں صحافیوں اور انجمنوں کو ان کی حمایت میں آواز اٹھانے کی درخواست کی تھی لیکن خوف اور دہشت کے مارے ان کی بات ان سنی ہوئی اور بھارتی میڈیا ہر مرتبہ اپنا دامن بچاتا رہا۔

شاید آپ نے نادی ہل بانڈی پورہ کی اس عورت کی وائرل ویڈیو بھی دیکھی ہوگی جب جولائی میں وہ سکیورٹی فورسز کی گاڑی کے نیچے کچلی گئی تھی۔

عوامی حلقوں نے احتجاج کے دوران اس بات کا گلہ کیا تھا کہ کاش فوج نے انہیں عورت کو ٹائر کے نیچے سے نکالنے کی اجازت دی ہوتی تو شاید وہ بچ جاتیں۔ بھارت کی عورتوں نے اس بربریت کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ہی بند کر لیں تھیں جس پر کشمیریوں کو کوئی تعجب نہیں ہوا۔

ابھی چند روز پہلے سوشل میڈیا کے چند پلیٹ فارم بند کیا ہوئے کہ ساری دنیا میں ایک کہرام مچ گیا۔ فیس بک کے بانی پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور آزادی اظہار کا گلہ گھونٹنے کا الزام بھی عائد ہوا حالانکہ خود مارک زکربرگ کو بھی شاید معلوم نہیں تھا کہ ان کی ایجاد کی ہوئی جاگیر پر یہ کون ڈاکہ زنی کر رہا تھا۔

جموں و کشمیر کے عوام کو 2019 اگست کے بعد 700 سے زائد روز تک بغیر انٹرنیٹ کے رکھا گیا۔ یہ فعل بڑی جمہوریت یا مادر جمہوریت کہلانے والے ملک نے کیا اور جواز حالات سدھارنے کا دیا تھا۔

مجال ہے کہ بھارت میں کسی ایک نے سڑک پر آ کر پوچھنے کی جرت کی ہو کہ ایک کروڑ سے زائد کشمیری آبادی کو اتنی سزا کیوں دی جا رہی ہے اور وہ بھی اس وقت جب کرونا کی وبا میں مبتلا تمام دنیا صرف انٹرنیٹ کے سہارے زندہ رہنے اور تشخص ڈھونڈنے کے طریقے تلاش کر رہی تھی۔

ان چند درد بھرے واقعات کی بازگشت اب پورے بھارت میں سنائی دینے لگی ہے اور اس کی زد میں ہر کوئی بغیر کسی مذہب و ملت کے آنے لگا ہے۔

وہ چاہے ہسپتالوں میں بیڈ سے لے کر آکسیجن کی تلاش کرنا تھی یا ’انتم سنسکار‘ کے لیے لکڑی تلاش کرنا تھا، ’بارش کے بھگوان‘ کے لیے دلت عورتوں کو برہنہ کیا جانا تھا، مہاراشٹر میں نوعمر بچی کے ساتھ درجنوں افراد کی جنسی زیادتی کا معاملہ یا ٹکری سرحد پر کسانوں کے احتجاج کو روکنے کے لیے نوکیلے باڑ لگا کر گولیاں چلانا ہو یا پھر چند روز پہلےلکھمی پور خیری میں بی جے پی کے وزیر کے صاحبزادے کی گاڑی سے کسانوں کو کچلنے کا معاملہ ہو۔

وہ سب کچھ، حراستی مراکز کا قیام، اینکاونٹر میں مار دینا، جنسی زیادتی کرنا، بچوں کو اغوا کر کے غلط کاموں پر لگانا، مظاہرین کی مار پیٹ کرنا، صحافیوں کی آواز کو دبانا، جیلوں میں بند رکھنا یا پھر فرضی معاملات میں الجھا کر غائب کرنا وغیرہ بھارت کی مختلف ریاستوں میں ہو رہا ہے۔

یہ کشمیر میں گذشتہ تین دہایوں سے جاری ہے مگر جیسے ایک ارب آبادی نے تب خاموشی اختیار کر رکھی تھی ویسے ہی آج لاکھوں کسانوں پر ہو رہے ظلم پر مادر جمہوریت پر یقین رکھنے والے نہ صرف خاموش ہیں بلکہ سکھ کسانوں کو خالصتانی کہہ کر شمالی بھارت میں ایک اور کشمیر کی بنیاد ڈالنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گو کہ کانگریس کی رہنما پریانکا گاندھی نے موجودہ صورت حال کے پیش نظر اتر پردیش کو کشمیر سے تعبیر دی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اترپردیش دوسرا کشمیر بن رہا ہے۔

اب تو صرف کسان ہی نہیں بلکہ بھارت کی آبادی کے 95 فیصد حصے کو بھی عنقریب کچلے جانے کا اندیشہ ہے جو بدقسمتی سے اونچی ذات سے نہیں ہے۔

حیرانی یہ ہے کہ اب بھی 95 فیصد ہندو محض شناخت کے لبادے میں پانچ فیصد اونچی ذات کے ساتھ مل کر 20 سے زائد فیصد اقلیت پر ہجومی تشدد دیکھ کر نہ صرف مسلسل خاموش ہیں بلکہ میڈیا پر ہندوتوا کے ترجمان بھی بنتے جا رہے ہیں۔

انہیں خود اسی طرح سے کچلے جانے کا اندیشہ ہے جیسے لکھم پور کے قریب آٹھ ہندووں اور سکھوں کو کچلا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ