صرف 20 سال سے کم عرصے میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ایک ہلکے پھلکے سائیڈ شو سے آگے نکلتے ہوئے کھیل کے عالمی کلینڈر کا وہ مرکز بن گیا ہے جس کے گرد پیسہ گھومتا ہے۔
ساتواں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کل اتوار کو عمان اور متحدہ عرب امارات میں شروع ہونے جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے مداحوں کو خوش کرنے والے اس کرکٹ فارمیٹ کی مسلسل ترقی کا جائزہ لیا ہے۔
ٹی ٹوئنٹی کا آغاز
2002 میں سگریٹ کے اشتہارات پر پابندی کی وجہ بنسن اینڈ ہیجز کے نام سے ایک روزہ مقابلہ ختم ہو گیا جس کے بعد انگلینڈ کرکٹ کے ڈومیسٹک کلینڈر میں خلا پیدا ہو گیا۔
اس خلا کو پر کرنے کے لیے انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے مارکیٹنگ مینیجر سٹوارٹ رابرٹسن نے دو ٹیموں کے درمیان 20، 20 اوورز کے میچ کی تجویز دے دی۔
یہ فارمیٹ ایمیچیئور اور جونیئر کرکٹ میں پہلے سے ہی معروف تھا۔ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی تجویز کا مقصد نوجوان شائقین کی توجہ حاصل کرنا تھا جن کے پاس زیادہ دن جاری رہنے والے میچ دیکھنے کے لیے وقت نہیں تھا۔
پہلے باضابطہ ٹی ٹوئنٹی کاؤنٹی میجز 2003 میں ہوئے جو شائقین کی بڑی تعداد کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
لارڈز کے میدان میں مڈل سیکس اور سرے کاؤنٹیز کے درمیان ہونے والے میچ کو 27 ہزار سے زیادہ تماشائیوں نے دیکھا۔
1953 میں ون ڈے کے فائنل کے بعد ’کرکٹ کے گھر‘ میں کاؤنٹی میچ کو دیکھنے والی شائقین کی یہ سب سے بڑی تعداد تھی۔
اپنی تیز رفتاری اور خاص طور پر بیٹسمینوں کی ہٹس کی بدولت ٹی ٹوئنٹی نے کہیں اور بھی توجہ حاصل کی اور یہ فارمیٹ دنیا بھر کے شائقین میں مقبول ہو گیا۔
لیکن اس کے باوجود یہ احساس ابھی موجود تھا کہ یہ’باقاعدہ کرکٹ‘ نہیں ہے۔
ٹی ٹوئنٹی کا عالمی میچ
پہلا بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی میچ 2005 میں ایڈن پارک، آکلینڈ میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا گیا۔
اس موقعے پر دونوں ٹیموں نے 1980 والی کٹس پہن رکھیں تھیں۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم نے’ بیژ بریگیڈ‘ کے اس دور کے خاکستری رنگ کی شرٹس پہنی ہوئی تھیں۔
حتیٰ کہ بعض کھلاڑیوں نے اس وقت کے انداز کے احترام میں نقلی داڑھی مونچھیں بھی لگا رکھی تھیں۔
مین آف دی میچ آسٹریلیاں کے رکی پونٹنگ کا کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ سنجیدگی سے کھیلنا مشکل ہے۔‘
تاہم ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت انٹرنینشل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی نظروں میں آ گئی جس کے بعد 2007 میں جنوبی افریقہ میں مردوں کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کروایا گیا۔
ٹورنامنٹ کے دلچسپ فائنل میں بھارت نے اپنے بڑے حریف پاکستان کو ہرا دیا۔
آئی پی ایل
جس طرح 1983 میں مردوں کے ون ڈے ورلڈ کپ میں انڈیا کی فتح نے دنیا میں کرکٹ شائقین کی سب سے زیادہ تعداد والے ملکوں کے رجحان کو محدود اوورز کے کھیل کی جانب موڑا اسی طرح یہ کامیابی کھیلوں کے لیے معاشی پاور ہاؤس کی حیثت رکھنے والے ملک میں تبدیلی کا سبب بنی۔
بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا نے اس کامیابی سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں شروع کر دیں اور انڈین کرکٹ لیگ (آئی سی ایل) پر تشویش کے باعث 2008 میں ٹی ٹوئنٹی کے نجی ایونٹ سے انڈین پریمیئر لیگ کا آغاز کر دیا۔
اس اقدام سے بورڈ نے نہ صرف آئی سی ایل کو مؤثر انداز میں ختم کر دیا بلکہ چھ ہفتے کے نئے ٹورنامنٹ نے عالمی سطح پر کرکٹ کا ماحول بدل ڈالا۔
خاص طور پر قومی کرکٹ بورڈز کے درمیان اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھنے والے تعلقات کو تبدیل کیا۔
شہروں کی بنیاد پر ہونے والی آئی پی ایل کی ٹیمیں مالدار نجی مالکان کے کنٹرول میں ہوتی ہیں اور کھلاڑیوں کی نیلامی کے نتیجے میں بننے والے سکواڈز کا مطلب یہ ہے کہ بڑے کرکٹرز تھوڑے وقت میں زیادہ پیسہ کما سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روایتی طور پر پرکشش کیریئر کے لیے کئی روز جاری رہنے والے انٹرنیشنل ٹیسٹ کرکٹ میں مصدقہ کھلاڑی بننا اور اس کے بعد سپانسرشپ کے معاہدوں کے فائدہ اٹھانا ہوتا تھا۔
تاہم اس کے علاوہ بھی ایک راستہ تھا۔ دوسری لیگز جیسا کہ آسٹریلیا بگ بیش اور کیریبیئن پریمیئر لیگ شروع کی گئیں جن سے عالمی ٹی ٹوئنٹی سرکٹ کی راہ ہموار ہوئی۔
آئی پی ایل کے آغاز پر اس کے عالمی مقابلوں کے ساتھ تنازعات سامنے آئے اور انگلینڈ کے اس وقت کے کپتان کیون پیٹرسن نے نئے ایونٹ میں کھیلنے کے معاملے اپنے آپ کو اس وقت کی ٹیم مینیجمنٹ کے ساتھ جھگڑوں میں گھرا ہوا پایا۔
باصلاحیت بیٹسمین نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے مئی میں اپنی ٹویٹ میں کہا: ’جب میں انگلینڈ کے خلاف کھڑا ہوا تو اکیلا تھا۔ اب ان کے تمام بہترین کھلاڑی کھلاڑی کھڑے ہیں۔‘
مستقبل میں کھیل
آئی پی ایل نے کھیل کو بہت تبدیل کر دیا ہے۔ آئی سی سی اپریل سے مئی تک ہونے والے ٹورنامنٹ کے دوران مردوں کے انٹرنیشنل میچز روکنے میں مؤثر طور پر کامیاب رہی ہے تاکہ ٹاپ کلاس کرکٹرز دستیاب رہیں۔
اس وقت کرکٹ کے مختلف فارمیٹس کا ایک ہی وقت میں وجود مشکل ہو گیا ہے۔ آئی سی سی نے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ شروع کی ہے۔
اس سال ٹورنامنٹ کے افتتاحی ایڈیشن میں نیوزی لینڈ نے فتح حاصل کی۔ آئی سی سی کے اس اقدام کا مقصد پانچ روزہ کھیل کو فروغ دینا ہے۔
فائنل میں شکست کھانے والی بھارتی ٹیم کے کپتان وراٹ کوہلی نے اگست میں کہا تھا کہ ’میرے لیے کھیل کی معراج ہے۔ میں کھیل کے وقت ٹیسٹ کرکٹ کو سب کچھ دوں گا۔ میں آپ کو اس کا یقین دلا سکتا ہوں۔‘
لیکن دیکھنا باقی ہے کہ کوہلی کا رویہ پورے کرکٹ میں کب تک قائم رہتا ہے۔