مستند ہے میرا فرمایا ہوا

دو ہفتے سے خود کو روک رکھا ہے کہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہ کروں، کیونکہ میں وزیراعظم کے ڈرائنگ روم اور جی ایچ کیو کے سٹرانگ روم تک براہ راست رسائی نہیں رکھتی۔

راولپنڈی میں سڑک کنارے بیٹھے ایک نجومی لوگوں کے نجی مسائل کی بنیاد پر کماتے ہیں اور سیاسی تجزیہ نگار اندرونی ذرائع  کے کندھوں پہ رکھ کر بندوق چلاتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتی ہیں

 


’میاں تمھارے ہاتھ میں کامیابی کی لکیر بڑی واضح ہے، لیکن اس میں ابھی دو چار برس لگیں گے۔‘

نجومی جواب کے متلاشی کا ہاتھ تھام کر اس کی ہاتھوں کی لکیر نہیں، ماتھے کی شکن پڑھتا ہے اور کامیابی کے انتظار کو دو چار برس کی راہ دکھا دیتا ہے۔

کوئی جواں سال جوڑا جب بےترتیب دھڑکنوں کے ساتھ پامسٹ  کے سامنے بیٹھتا ہے تو اسے غم روزگار کا حل نہیں، وصل کی گھڑی پوچھنی ہوتی ہے۔ پیسوں پہ منحصر ہے، عاشق نے منہ مانگے دام دیئے تو پامسٹ جلد ہی ملن کی نوید سنائے گا۔

لیکن اگر جوتشی کی فیس میں لے دے سے کام لیا ہو تو یہ ہاتھ کی لکیر پڑھنے والے بھی بڑے سفاک ہوتے ہیں، کمبخت رقیب کی آمد کا مژدہ سناتے ہی فقرہ بھی کس دیتے ہیں: ’یہ جو انگشت کے بائیں جانب تکون بنا ہے یہ کہتا ہے شادی ایک ہی ہوگی، مگر محبت دو بار ہوسکتی ہے۔‘

پامسٹ، جوتشی، نجومی اور فال نکالنے والے اپنی کہی درست ثابت نہ ہونے پہ منی بیک گارنٹی نہیں دیتے۔ ان کا کہا پورا نہ ہو تو کوئی ہاتھ دکھانے والا ان کے پاس یہ کہنے نہیں جاتا کہ  چچا تم تو کہتے تھے کامیابی قدم چومے گی، اس ایک بوسے کی خاطر کس کس در پہ ماتھا رگڑا، کہاں کہاں جوتے چٹخائے، کسے کسے خوش رکھا اور کیسے کڑوے گھونٹ پیے۔ قسمت، دولت، شہرت اور حکومت ہاتھ کی لکیروں سے نکل کر ہاتھ میں کیسے آئے گی یہ بھی بتا دیتے۔

جوتشی، نجومی کسی کو یہ کہہ کر خالی نہیں لوٹاتے کہ جا بیٹا تیرا تو ہاتھ خالی ہے۔ نہ  قسمت کی لکیریں ہیں اور نہ محنت کے زخم۔ یہ بزنس کے ایسے ماہر ہوتے ہیں کہ ہر گاہک کی ضرورت کے حساب سے کچھ نہ کچھ امید ضرور بیچتے ہیں۔

کراچی کی بزنس کمیونٹی میں رہنے کی وجہ سے میں نے اس شرطیہ کارگر نسخے کو بغور دیکھا ہے کہ کامیاب دکاندار گاہک کو کبھی یہ نہیں کہتا کہ ’فلاں چیز میری دکان پہ دستیاب نہیں‘ یا ’ہم رکھتے ہی نہیں کہیں اور چلے جائیں۔‘ ایک اچھا سیلزمین یہ کہہ کر گاہک کے پیر باندھ لیتا ہے کہ ’باجی ایسی چیزیں ٹکتی ہی کہاں ہیں اِدھر آئیں اُدھر گئیں، آپ کو میں اس سے بھی بڑھیا آئٹم دکھاتا ہوں، یہ مارکیٹ میں نیا آیا ہے مگر یہ بھی رکنے والا نہیں۔‘

ایسے ہی میڈیا اور سوشل میڈیا کے شاطر دکاندار اپنی اپنی دکانیں سجائے بیٹھے ہیں۔ پلے کچھ ہو نا ہو ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے معاملے پہ کچھ نہ کچھ چورن، منجن، پھکی اور چھلی بیچ ہی رہے ہیں۔ گاہک اندر کی خبر کے انتظار میں  تجزیوں اور ذرائع سے اڑی اڑائی خرید رہے ہیں۔

دو ہفتے سے خود کو روک رکھا ہے کہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہ کروں، کیونکہ میں وزیراعظم کے ڈرائنگ روم اور جی ایچ کیو کے سٹرانگ روم تک براہ راست رسائی نہیں رکھتی۔ نہ میرے پاس کوئی طوطا مینا ہے نہ ہی کوئی چڑیا یا کتا جو یہاں وہاں کی سن گن لے، میرے قبضے میں تو موکل بھی نہیں جو بند کمروں کی کنڈی کھولے بغیر اندر کی ساری خبر باہر لے آئے۔

اگر میں یہ کہوں کہ ’ستاروں کی گردش بتا رہی ہیں کہ دلوں کی خلیج اپنی جگہ مگر خلا جلد پر ہونے کو ہے۔‘ سمجھ دار سمجھ جائیں بقایا سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ باخبر مجھے بھی باخبر سمجھیں اور میں کچھ نہ کہہ کر بھی آئیں بائیں شائیں کی لفاظی بیچ کر اپنی دکان چمکا لوں۔ یہ ممکن ہے۔

یہ ویسے ہی ممکن ہے جیسے بڑے بڑے ناموں والے تجزیہ نگاروں نے تین برس پہلے حتمی طور پہ کہہ دیا تھا: ’اب بس ہوئی خان کسی مافیا کو برداشت نہیں کرے گا۔‘ پیش گوئی کے برعکس خان صاحب نے تو برداشت کر لیا، ہاں مگر تجزیہ نگاروں کی اس پہ بس نہیں ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تجزیہ نگاروں نے کہا: ’مریم اب کسی کمپرومائز کے موڈ میں نہیں۔‘ حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ بیک چینل رابطے  پورے تام جھام سے ہوتے ہیں، اس میں کوئی برائی بھی نہیں کیونکہ یہی سیاست ہے۔ ہاں تجزیہ نگاروں کی رنگ بازی یہاں بھی پھیکی پڑیں۔

تجزیہ نگاروں نے اندرونی ذرائع  کے کندھوں پہ رکھ کر بندوق چلائی کہ ’بلاول کا انداز بتا رہا ہے وہ  شریف اور بھٹو لیگسی کے لیے میثاق جمہوریت کے نئے امین بنیں گے۔‘ اس تجزیے کی کڑہی بھی ضرورت سے زیادہ کھٹی ہوگئی۔

تجزیہ نگاروں نے مولانا فضل الرحمٰن کی یہاں آمد وہاں جامِد پہ نظر رکھی، اپنے تیس بتیس برس کے تجربے کی روشنی میں بتایا کہ ’مولانا نے کہہ دیا سو کہہ دیا اسلام آباد میں اب دمام مست قلندر ہوگا۔‘ اسلام آباد پولیس اپنے ڈولے بناتی رہ گئی سڑکوں پہ کوئی مرد قلندر نہ آیا۔

’مجھے بند کمرے کی سرگوشیاں تک معلوم ہیں‘ رعونت و فخرسے یہ کہتے ہوئے دیئے جانے والے تجزیوں کی فہرست طویل ہے جیسے کہ  بڑے صاحب ضد پہ اڑے ہیں، قاصد سمری لیے تیار کھڑے ہیں، گیٹ نمبر چار کی گھنٹی خراب ہے، استعفیٰ جیب میں تیار پڑا ہے، پشاوری قہوہ نہیں چائے ہی چلے گی، ایک صفحے پہ کبھی ہاں کبھی ناں کے لفظ ناچ رہے ہیں۔ اب ستارہ شناسوں کے ان ذومعنی جملوں میں کتنا سچ اور کتنی گپ ہے یہ ان کے ٹریک ریکارڈ سے جانچ لیں۔

باسی تجزیے پہ تازہ تڑکے لگانے والے اس سے قبل یہ کہتے رہے کہ دو سال میں پاکستان کو آئی ایم ایف فری ملک دیکھ رہا ہوں، اس نے تین برسوں میں ملک کو ایشین ٹائیگر نہ بنا دیا تو کہنا، لکھ کر رکھ لیں وہ اب کی بار کٹ جائے گا مگر جھکے گا نہیں، پی پی پی کو پنجاب سے ختم ہونے سے اب کوئی نہیں بچا سکتا، دعوے سے کہہ رہا ہوں ن سے شین نکل گئی، حکومت آج گئی کل گئی، کہو تو مڈٹرم الیکشن کی تاریخ بتادوں وغیرہ وغیرہ۔

دکانداری کا وہ راز یاد رکھیں انہیں کچھ نہ کچھ مال تو بیچنا ہے، گاہک کو خالی ہاتھ لوٹانا بھی ٹھیک نہیں سو تازہ تجزیہ یہ ہے کہ ادارے کا مورال اتنا ڈاؤن ہے کہ اگلے الیکشن سے جی اوب گیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ