پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

انصاف پسند عالمی دانشوروں کی جانب سے فلسطین کاز کے لیے حمایت فلسطینیوں کے اتحاد کے بغیر نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتی!

کثیر الاشاعت جریدے 'سنڈے ٹائمز‘ نے رونی کو سال 2017 کی بہترین نوجوان ادیبہ قرار دیا تھا(اے ایف پی)

کتب بینی کے رو بہ زوال شوق کے باوجود عالمی فروخت کے ریکارڈ قائم کرنے والے ناول’خوبصورت دنیا، تم کہاں ہو‘ کی مصنفہ سیلی رونی نے اپنی شہرہ آفاق تخلیق کو انگریزی سے عبرانی زبان کے قالب میں ڈھال کر اس کی اشاعت کے جملہ حقوق منہ مانگی قیمت کے عوض اسرائیلی ناشر ’مودان‘ کو فروخت کرنے سے انکار کر کے سرمایہ دار یہودیوں کے غیظ وغضب کو آواز دی، جو بالآخر سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر رونی کے خلاف ٹرولنگ کے لامتناہی سلسلے پر منتج ہوئی۔

30 سالہ آئرش مصنفہ اور سکرین رائٹر سیلی رونی کا شمار انگریزی زبان کے مقبول ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ اب تک ان کے تین ناول شائع ہو چکے ہیں۔ ان میں سے پہلا ناول 2017 میں شائع ہوا۔ اس کا نام 'دوستوں سے مکالمت‘ تھا۔ دوسرا ناول 2018 میں 'عام لوگ‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ تیسرا ناول 'خوبصورت دنیا، تم کہاں ہو‘ رواں برس ستمبر میں شائع ہوا۔ پہلے دونوں ناولوں کی طرح سیلی رونی کے تیسرے ناول کو بھی خاصی پذیرائی ملی۔

کثیر الاشاعت جریدے 'سنڈے ٹائمز‘ نے رونی کو سال 2017 کی بہترین نوجوان ادیبہ قرار دیا تھا۔ ان کے دوسرے ناول 'عام لوگ‘ کو 2018 کا بہترین آئرش ناول قرار دیا گیا۔ سیلی رونی کو 2019 میں افسانہ نگار خواتین کے خصوصی انعام بھی نوازا جا چکا ہے۔

اسرائیلی ناشر مودان کو آئرش مصنفہ کی جانب سے اپنے ناول کے عبرانی ترجمے کی اجازت نہ دینے کا اعلان عصر حاضر میں ’نارملائزیشن‘ کا راگ آلاپنے والوں کے لیے ایک مہلک وار سے کم نہ تھا۔

رونی کا یہ اعلان 2005 میں فلسطینی سول سوسائٹی اور عالمی رضاروں کی جانب سے اسرائیل کے بائیکاٹ، علیحدگی اور پابندیوں کی تحریک المعروف BDS کا ٹھٹا اڑانے والوں کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ بن کر وارد ہوا۔

آئرش مصنفہ کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب اکیڈیمی ایوارڈ یافتہ امریکی اداکارہ سوزان سرنڈون نے ’اصل باسیوں کے عالمی دن‘ کے موقع پر ایک انفوگرافک ٹویٹ کیا جس میں بیسویں صدی کے دوران فلسطین کے اصل باسیوں کی زمین پر اسرائیلی قبضے کی نشاندہی کی گئی تھی۔ انہوں نے ایک الگ انفوگرافک ٹویٹ میں یورپی استعماریوں کی جانب سے اصل امریکی باسیوں کی زمین پر قبضے کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیا تھا۔

نسل پرست، قابض استعماری یہودی ریاست نے دونوں انفوگرافکس پر بہت زیادہ واویلا مچایا۔ توقع کے عین مطابق سرکش اسرائیلی ریاست نے حقیقت کے غماز ان انفوگرافکس کو ’یہود‘ اور ’امن مخالف‘ قرار دینے میں دیر نہیں لگائی۔ الزامات وہی تھے جو اسرائیل پر تنقید کرنے یا مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کرنے والوں پر لگائے جاتے ہیں۔

غیرجانبدار سیاسی مبصرین کے مطابق رونی کا قابل تحسین اقدام ’نسل پرستی‘ اور نہ ہی ’یہود مخالفت‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ اسرائیلی حکومت سے کاروباری لین دین کرنے والے ناشر کو اپنے ناول کے اشاعتی حقوق دینے سے انکار کر کے رونی نے دراصل اخلاقی اقدار کا بول بالا اور بائیکاٹ، علیحدگی وپابندیوں کی تحریک کا ساتھ دیا۔

فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف رائے عامہ منظم کرنے والی BDS نامی ایڈوکیسی تحریک کا اصل محرک اسرائیل کا استعمار نواز اور نسل پرستانہ سیاسی بیانہ ہے۔

منفرد اسلوب کی حامل ناول نگار رونی اخلاقی اصولوں کی روشنی میں اسرائیلی اداروں کے ساتھ ثقافتی تعلقات کی مخالفت کرنے والی کرنے والی پہلی مصنفہ نہیں۔ ان کا اپنایا گیا موقف کئی دوسرے عالمی دانشوروں، موسیقاروں، فنکاروں، مصنفین اور سائنس دانوں کے نقطہ نظر سے ہم آہنگ ہے۔ آئے روز بڑھنے والی اس فہرست میں نغمہ نگار راجر واٹرز، امریکی ناول نگار اور سوشل ورکر ایلس واکر اور نظریاتی فزکس کے ماہر آنجہانی سٹیفن ہاکنگ نمایاں نام ہیں۔

اسرائیل کے بائیکاٹ، علیحدگی اور پابندیوں کی تحریک کے شریک بانی عمر برغوثی نے تحریک کے مقاصد بیان کرتے ہوئے واضح کیا ہے’کہ فلسطینیوں کے مقاطعے کا ہدف افراد نہیں ادارے ہیں کیونکہ یہ ادارے پرپیچ انداز میں اسرائیلی منصوبہ بندی کا حصہ بنتے ہیں جس کی آڑ میں صہیونی ریاست کو فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی جیسے اپنے جرائم اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کی پردہ پوشی کا موقع ملتا ہے۔

اسرائیل کے بائیکاٹ، علیحدگی اور پابندیوں کی تحریک کے ناقدین جان بوجھ کر اس کے ڈانڈے یہودیوں کے خلاف نفرت آمیزی سے ملاتے ہیں۔ درحقیقت BDS قانون پر مبنی سیاسی بیانیے کی ایک تحریک ہے جس کا مقصد امتیازی سلوک اور نسل پرستی کے معاشی، سیاسی اور ثقافتی ڈھانچوں کو مضمحل کر کے انہیں دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

الحمد للہ! فلسطینی اپنی برحق جدوجہد میں آج اکیلے نہیں۔ مغربی دنیا کے انصاف پسند دانشور، ادیب اور فنکار ان کے ’کاز‘ کی صداقت کو دل وجان سے تسلیم کر کے اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ تاہم فلسطینی اندرون خانہ جس انتشار کا شکار ہیں اسے دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ مغربی دنیا کی یہ انٹلیکچوئل حمایت کہیں رائیگاں نہ چلی جائے۔

فلسطینی سیاست پر نظر رکھنے والا اندرون یا بیرون فلسطین ہر سیاسی مبصر اس بات پر متفق ہے کہ متحدہ سیاسی نظام اور مسلمہ قیادت کی شناخت کے بغیر فلسطینیوں کے مقدمے کو دنیا کے سامنے مؤثر انداز میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ فلسطینی مجلس قانون ساز کے 2006 کو ہونے والے انتخابات کے بعد سے حکمران جماعت ’فتح‘ اور مزاحمتی تنظیم ’حماس‘ کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کم ہونے کی بجائے روز بروز بڑھ رہے ہیں۔

تاہم گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ’حماس‘ اور ’فتح‘ پر مشتمل اتحادی حکومت کی تشکیل کے لیے مصر کی قیادت میں سفارتی کوششوں کا ڈول ڈالا گیا۔ دو متضاد سیاسی موقف رکھنے والی ان جماعتوں کو جس وسیع البنیاد ایجنڈے کی فہرست دکھا کر مذاکرات کی میز پر بٹھایا گیا ہے، ان میں اسرائیل کے ساتھ غزہ کی سرحد پر طویل المیعاد جنگ بندی سر فہرست ہے کیونکہ اس پر اتفاق کے بعد ہی غزہ کی پٹی میں تعمیر نو کا عمل شروع ہو سکے گا۔ اسی کے ذریعے اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کی بھی راہ ہموار ہو گی۔

قیدیوں کی دوطرفہ رہائی کا معاملہ اسرائیل۔غزہ۔غرب اردن کی مثلث میں مرکزی نقطہ ہے۔ اس کی کامیابی یا ناکامی کے اثرات یقیناً رام اللہ۔غزہ کی صورت حال پر بھی پڑنے کا امکان ہے۔ تیزی سے بدلتی ہو عالمی بالخصوص شرق اوسط کی سیاست دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اسیران کے معاملے پر فلسطینی کسی اتفاق رائے سے پیچھے ہٹنے کی پوزیشن میں نہیں۔ 

امریکہ کی سیاست میں اس وقت اگرچہ شرق اوسط کے لیے کوئی واضح پالیسی دکھائی نہیں دیتی، اسی لیے فلسطینیوں کو اپنے کاز کے حق میں فروغ پانے والی ثقافتی اور سفارتی حمایت کو کیش کروانے کی خاطر متحد ہونا ہو گا ورنہ دانشوروں کی سطح پر فلسطینیوں کے حق میں اٹھنے والی عالمی آوازیں دم توڑ جائیں گی۔ اسرائیل، فلسطین کے حق میں ابھرتی ہوئی اس ’سافٹ پاور‘ سے انتہائی خوفزدہ ہے۔ اسے تاراج کرنے کے لیے تل ابیب کسی بھی حد تک جا سکتا ہے!

فلسطین کے حق میں اصولی اور اخلاقی موقف کی بنیاد پر تمام مادی ومعنوی فوائد کو تج کر اسرائیل اور اس کے عالمی حواریوں کی مخالفت مول لینے والی دلیر آئرش مصنفہ سیلی رونی مبارک باد کی مستحق ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر کے زندہ وبیدار فلسطینی دشمن کا منصوبہ ناکام بنائیں گے مبادہ رونی کو اپنے موقف پہ کہتے ہوئے پچھتانے پڑ جائے:

یہی کہا تھا مری آنکھ دیکھ سکتی ہے
کہ مجھ پہ ٹوٹ پڑا ۔۔۔ سارا شہر نابینا

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ