سعودی فوجی افسر کی باقیات کی 30 سال بعد عراق سے واپسی

کیپٹن عبداللہ القرنی آپریشن ’ڈیزٹ سٹرام‘ کے دوران عراق میں گرفتار ہونے کے بعد ایک عراقی جیل میں فوت ہو گئے تھے۔

(اے ایف پی فائل فوٹو)

آپریشن ’ڈیزٹ سٹرام‘ کے دوران عراق میں گرفتار اور بعد ازاں ایک عراقی جیل میں ہلاک ہونے والے سعودی فوجی آفسر کی باقیات بالآخر تین دہائیوں بعد واپس سعودی عرب لائی گئی ہیں۔

عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق کیپٹن عبداللہ القرنی کی باقیات 21 اکتوبر کو شاہ عبدالعزیز ہوائی اڈے پر پہنچیں جہاں سے انہیں نماز جنازہ اور شہدا کے قبرستان میں تدفین کے لیے مکہ لے جایا گیا۔

کیپٹن عبداللہ القرنی کی گرفتاری اور ہلاکت کا باعث بننے والے واقعات کا آغاز اس وقت ہوا جب دو اگست، 1990 کو عراقی فورسز نے کویت پر حملہ کیا اور چند گھنٹوں میں دارالحکومت پر قبضہ کرلیا۔

اس حملے کے جواب میں امریکی قیادت میں 40 سے زائد اتحادی ممالک کی فوجیں ٹینکوں، توپ خانے، جنگی بحری جہاز اور جنگی طیاروں کے ساتھ متحرک ہوئیں اور سعودی عرب کے مشرقی صوبے اور دارالحکومت ریاض میں آپریشن ڈیزیٹ سٹرام کے لیے پڑاؤ ڈال لیا تاکہ حملہ آورعراقی فورسز کو کویت سے نکالا جا سکے۔

17 جنوری، 1991 تک یہاں زمینی، سمندری اور فضائی دستوں پر مشتمل چھ لاکھ سے زائد اتحادی ممالک کی افواج جمع ہو گئیں اور فضائی اور بحری راستوں سے بمباری کا آغاز کیا گیا۔

اس کے ایک ہفتے بعد زمینی فوجیں کویت اتاری گئیں جن میں کپٹن القرنی بھی شامل تھے۔

42 روزہ جنگ کے دوران زیادہ تر ہلاکتیں عراقی فوجیوں کی ہوئیں اور بعض اندازوں کے مطابق 35 ہزار کے قریب عراقی فوجی اس جنگ میں مارے گئے۔

خلیجی جنگ کے دوران درجنوں اتحادی فوجی بھی ہلاک ہوئے جن میں سعودی فورسز کے 18 فوجی شامل تھے۔

اس کے علاوہ 32 سعودی فوجی زخمی بھی ہوئے جب کہ 11 سعودی جنگی قیدی بعد میں مملکت کو واپس کردیے گئے۔

کیپٹن القرنی کی گرفتاری کن حالات میں ہوئی اس بارے میں کوئی ٹھیک سے نہیں جانتا لیکن آخر کار بعد میں اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ وہ عراق کی ایک جیل میں قید تھے اور اس کے بعد کی دہائی میں ان کی موت ہوگئی۔

تاہم اس حوالے سے تفصیلات واضح نہیں۔ سعودی حکام کی جانب سے ان کی باقیات کو وطن واپس لانے کی برسوں کی کوششیں بالآخر ہفتے کو بارآور ثابت ہوئیں۔

عبداللہ القرنی کے بھائی اور سعودی بحریہ کے سابق افسر سلیم القرنی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ان کی موت عظیم مقصد کے لیے تھی جنہوں نے اپنی آخری سانس تک ملک کی خدمت کی۔

انہوں نے کہا کہ جنگ سے پہلے عبداللہ القرنی نے اپنی تین بیٹیوں اور بیوی کو الوداع کہا تھا اور فوجی تربیت کے لیے ریاض روانہ ہو گئے۔

سلیم نے کہا: ‘1990 میں خلیجی جنگ سے کچھ مہینے پہلے میرے بھائی کو المزاحمیہ (ریاض کے مغرب) میں تربیت کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔

’ایک ماہ بعد کویت پر وحشیانہ حملہ ہوا اور انہیں براہ راست فوجی مشن پر جانے کا حکم دیا گیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ان کے بھائی نے لڑائی میں شامل ہونے میں کوئی ہچکچاہٹ ظاہر نہیں کی لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ تقریباً پانچ دن کی کارروائی کے بعد انہیں پکڑ کر عراق لے جایا گیا جہاں انہیں برسوں قید میں رکھا گیا۔

سلیم نے کہا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے بھائی اس وقت بھی عراقی جیل میں قید تھے جب امریکی افواج نے 2002 میں عراق پر حملہ کیا تھا۔

عراق کے سابق صدر صدام حسین کی موت اور ان کے دور حکومت کے خاتمے کے بعد عبداللہ القرنی یا ان کے دوستوں میں سے کسی کا بھی جیل میں کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بعد میں ان کی باقیات کی شناخت کی گئی اور خاندان کو انہیں واپس لانے کے لیے ایک نئی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا۔

تاہم انہوں نے کبھی امید نہیں چھوڑی اور سعودی حکومت کی مدد سے اپنی مہم جاری رکھی۔

سلیم نے کہا: ’سعودی حکومت نے ان کی باقیات وطن واپس لانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے۔‘

سلیم نے وضاحت کی کہ ان کے والدین نے عبداللہ کے لاپتہ ہونے کے نتیجے میں بہت دکھ برداشت کیے۔

چونکہ ان کی موت کی تصدیق نہیں ہوئی تھی اس لیے ان کی امید قائم تھی کہ شاید وہ زندہ واپس آ جائے۔ ان کے والد کا 2000 میں اور والدہ کا 2015 میں انتقال ہوا۔

عبداللہ کے کزن صالح القرنی نے کہا کہ ’ملک کا دفاع کرتے ہوئے ان کی شہادت انتہائی عزت اور فخر کا باعث ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا