ججوں کے خلاف ریفرنس، قانون اور فون کا ملاکھڑا

جسٹس قاضی فائز عیسی کی قانون پرستی خود پسندی سے مالا مال اور ہر وقت بولنے کے شوقین ریٹائرڈ چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں کئی اہم موقعوں پر سامنے آئی۔

مجھے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو قریب سے کام کرتے ہوئے دیکھنے کا موقع اس وقت ملا جب انہوں نے بلوچستان ہائی کورٹ میں صحافیوں سے متعلق ایک کیس پر مجھے اور جاوید جبار کو بطور ’مدد گار منصف‘ طلب کیا۔

جاوید جبار اس روز نہ پہنچ پائے اور مجھے بلوچستان ہائی کورٹ کے سامنے مقامی میڈیا کے اعتراضات پر روشنی ڈالنے کے لیے ایک مفصل تجزیہ پیش کرنا پڑا۔

بلوچستان ہائی کورٹ بار کے نمائندگان کے علاوہ جسٹس فائز عیسیٰ خود اس تفصیلی جائزے میں شرکت فرما رہے تھے۔ انہوں نے انسداد دہشت گردی کے قانون کی ایک شق کے تحت کالعدم تنظیموں کی پریس ریلیزز کی نشرو اشاعت اور تشہیر پر مکمل پابندی عائد کر رکھی تھی۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے نمائندگان کا ماننا تھا کہ کالعدم تنظیمیں اس پابندی کا ذمہ دار مقامی رپورٹر کو ٹھہراتی ہیں جس وجہ سے ان کی اور ان کے خاندانوں کی جانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ چند صحافی حملوں کی زد میں بھی آئے۔ بعض وقتی طور پر اغوا کیے گئے۔ بہت سوں نے پیشہ ترک کرنے کا ارادہ کیا ہوا تھا۔

میری گزارش کا خلاصہ یہ تھا کہ جان اور مال کا تحفظ آئین سے ضمانت شدہ بنیادی حق ہے اور عدلیہ شہریوں کو کسی ایسے کام پر مجبور نہیں کر سکتی جس سے یہ حقوق پامال ہو رہے ہوں۔ دہشت گردوں کے مواد کی اشاعت پر پابندی اپنی جگہ جائز لیکن اس کی اطاعت میں اٹھائے گئے نقصانات کو روکنا ریاست اور عدلیہ دونوں کا فرض اول ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ عدالت اپنے حکم کی تعمیل پر مصر رہے اور اس کی پاداش میں کالعدم تنظیمیں صحافیوں کو قتل و اغواء کر کے حساب چکاتی رہیں۔
چار پانچ گھنٹے کی نشست کے بعد واپسی سے پہلے جسٹس صاحب نے چائے کا پیالہ پلایا اور کہا، ’آپ نے اپنی برادری کے موقف کا بہترین مقدمہ لڑا ہے۔‘

اس جملے سے تقویت ملی اور یہ اطمینان ہوا کہ اب مقامی میڈیا کے لیے اس بدترین مشکل میں سے نکلنے کا کوئی راستہ سامنے آ جائے گا۔ کم از کم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی باتوں سے تو یہی لگ رہا تھا۔ لیکن چند دن بعد پتہ چلا کہ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کے موقف میں رتی برابر بھی تبدیلی نہیں آئی۔ تمام گزارشات سننے کے بعد بھی ان کا نقطۂ نظر یہی تھا کہ انسداد دہشت گردی کے قانون میں ذرائع ابلاغ کے لیے واضح انداز سے ہدایات سے انحراف ممکن نہیں اور یہ کہ ذرائع ابلاغ کے نمائندگان کو اس معاملے میں چھوٹ نہیں دی جا سکتی۔

چائے کے پیالے پر جج صاحب کی خوش گفتاری اور حوصلہ افزا جملوں سے بننے والی امیدیں دھڑام سے گر گئیں۔ واضح ہو گیا کہ ان کی عدالت وہی کرتی ہے جو وہ کرتی ہے۔ نہ دائیں دیکھتی ہے نہ بائیں۔ بس ناک کی سیدھ میں قانون کے سخت گیر اطلاق کی راہ پر گامزن رہتی ہے۔

اس سے قبل اور بعد کے حالات میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسی کے ان خالصتاً قانونی رویوں کی مزید وضاحتیں موجود ہیں۔

12 مئی کے واقعے میں کراچی کی سڑکوں پر خون کی ہولی کھیلنے والوں سے قاضی فائز عیسی نے سینگ لڑائے۔ آج کے وزیر قانون اس وقت الطاف حسین کے سب سے چرب زبان وفادار نمائندوں میں سے ایک تھے۔ فروغ نسیم الطاف حسین کی پالیسیوں کو انتہائی جمہوری انداز سے پیش کرتے۔ بالکل ویسے ہی جیسے انہوں نے جنرل مشرف کی غداری اور بلدیہ فیکٹری میں بندے جلانے والوں کے موقف کو قانونی طور پر پیش کیا۔ فروغ نسیم اور قاضی فائز عیسیٰ کی 12 مئی کی قتل و غارت گری پر ان بن ایک طویل عرصے تک قانونی حلقوں میں زیر بحث رہی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


جسٹس قاضی فائز عیسی کی قانون پرستی خود پسندی سے مالا مال اور ہر وقت بولنے کے شوقین ریٹائرڈ چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں کئی اہم موقعوں پر سامنے آئی۔ ریٹائرڈ چیف جسٹس کا یہ شوق کہ سپریم کورٹ کو ہر معاملے میں گھسا کر قانون کی بالادستی کا ڈھول پیٹا جائے۔ اس رویے سے متصادم تھی جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان جیسے دوسرے متوازن منصفین نے اپنایا ہوا تھا۔

حدیبیہ پیپر ملز کیس کا فیصلہ ہو یا کوئٹہ میں عدالت کے احاطے میں دہشت گردی کی انکوائری رپورٹ، فیض آباد کے دھرنے کے فیصلے میں دی گئی ہدایات ہوں یا سیاسی انتقام بنام عدالتی احتساب۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے نہ تو کبھی آئین کو سرنگوں ہونے دیا ہے اور نہ قانون کوشاہی فرمان کا فرماں بردار بنایا۔ وہ وہی کرتے ہیں جو ضابطہ کہتا ہے۔ نہ دائیں دیکھتے ہیں نہ بائیں، سر جھکائے بغیر سیدھی نظر کے ساتھ بس ناک کی سیدھ میں چلتے ہیں۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ نظام میں گنجائش صرف نکٹوں کی ہے۔ اس نظام کی عادتیں بگڑی ہوئی ہیں۔ یہ  ڈفلی کی تھاپ پر زعما کو نچواتا ہے۔ یہاں وزرا کان پکڑتے ہیں۔ وزیراعظم کان پکڑ کر بیٹھکیں لگاتا ہے۔ یہ ایسے ججوں کو کیوں کر برداشت کرے گا جو سوالی بن کر عہدوں کی بھیک نہیں مانگتے بلکہ کڑوے سوالوں کے سیدھے جوابات اور واضح ہدایات جاری کرتے ہیں۔

اس نظام میں خاندانی ہونا بھی کافی نہیں ہے۔ یعنی اگر آپ کے آبا و اجداد قائد اعظم کے منظور نظر رہے ہوں اور تین پیڑھیوں سے لوگ آپ کی ثروت اور ایمان داری سے واقف ہوں تو پھر بھی آپ گھناؤنے الزامات کے تابکاری اثرات سے نہیں بچ سکتے۔ یہ نظام ایک نئے عمرانی معاہدے کے تحت چل رہا ہے جس کے صرف دو بنیادی اصول ہیں: ’مالش اور پالش۔‘ اگر آپ مالشیے اور پالشیے نہیں ہیں تو آپ کی حیثیت چوروں، ڈاکوؤں، حرام خوروں، اثاثے چھپانے والوں سے بھی بدتر ہے۔ اگر آپ زنجیر پہن کر رقص نہیں کرتے تو آپ کی قسمت میں درے اور دھول ہے جو آپ کو چاٹنی پڑے گی۔
تو اس میں کوئی عجب بات نہیں ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف رات کی تاریکی میں دو ماہ کی کاوشوں کے بعد وزارت قانون کی محنت اور جاری کردہ ہدایات کے عین مطابق اثاثے ظاہر نہ کرنے کا ایک ریفرنس بھیجا گیا ہے۔ اس سے پہلے ان پر کبھی دہری شہریت اور کبھی بے قاعدہ ترقی پانے کے الزامات لگ چکے ہیں۔ وہ تو ان کی قسمت اچھی تھی کہ ثاقب نثار کم مدت کے لیے چیف جسٹس رہے اور اپنی ہی بنائی ہوئی الجھنوں میں پھنسے رہے ورنہ ان کو پٹخنے کے لیے اڑنگا کافی پہلے سے تیار کیا جا چکا تھا۔
یہ عین ممکن ہے کہ اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آنے والے چیف جسٹس گلزار اور جسٹس بندیال کے بعد اس عہدے پر فائز ہونے کے لیے سینیئر ترین جج نہ ہوتے تو آج ان کے خلاف یہ ریفرنس نہ تیار ہوتا۔ یہ تصور کہ وہ اگلے چند سال میں اس ملک کی عدلیہ چلا رہے ہوں گے، اس نظام پر ابھی سے لرزہ طاری کر رہا ہے۔ جھرکٹ ہو رہے ہیں، یہ سوچ کر کے کہیں تازہ قبروں میں دفن کیے ہوئے حالیہ سیاسی اور قانونی مردے اکھڑ کر باہر نہ آ جائیں۔ کہیں دھاندلی، دھونس، دھرنے اور دادا گیری کے خلاف گواہیاں طلب نہ ہو جائیں۔ کہیں کوئی عادل نہ آ جائے۔ کچھ عدل نہ ہو جائے۔ کہیں روشن دماغ منصف اندھے ہو کر قانون کو اندھا دھند نافذ نہ کر دیں۔ کہیں قاضی انصاف کرنے میں فائز نہ ہو جائے۔

اس عمرانی ریفرنس کے محرکات واضح ہیں۔ اس کے مخرج سے سب واقف ہیں۔ اس کا ہدف جسٹس قاضی فائز اور ان جیسے دوسرے جج ہیں۔ اس کا سب کو پتہ ہے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ اس ریفرنس کو سننے والے منصفین ڈگمگائیں گے یا ثابت قدم رہیں گے؟ قانون کی سنیں گے یا فون سنیں گے؟ حقیقت میں ریفرنس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں نہیں۔ یہ اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں ہے۔ اب عدلیہ کے ججوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنے بارے میں جواباًَ کیا لکھیں گے؟

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر