ورلڈ کپ 2019: اب ہر کوئی ’رب کیج‘ کو نشانہ بنائے گا

مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم دراصل پی سی بی میں بیٹھے ضرورت سے زیادہ ماہرین کی مہارتوں کے ہاتھوں تباہ ہو رہی ہے جو ٹویٹر پر پاکستانی ٹیم کے 11 کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان کرتے ہیں

شعیب ملک میچ کے دوران اپنے مداحوں کے نرغے میں۔ (اے ایف پی)

‎‎پاکستان کے لیے کرکٹ ورلڈ کپ کا آغاز یقینا اچھا نہیں ہوا۔ بعض لوگوں کے نزدیک پاکستان کا ٹاس ہار کر پہلے بیٹنگ کرنا اچھا نہیں تھا مگر میرے نزدیک پاکستان کو بڑے میچوں میں پہلے بیٹنگ کر کے اچھا ٹارگٹ دینا چاہئے تھا۔ کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی کارکردگی حیران کن نہیں تھی۔ اگرچہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ہونے والا میچ سیمی فائنل یا فائنل کی طرح بڑا میچ تو نہیں تھا مگر عالمی کپ کا پہلا میچ ہونے کی وجہ سے بہت اہم تھا۔

‎ایک روزہ میچ میں 481 رنز کا عالمی ریکارڈ ٹرینٹ بریج کے میدان میں ہی بنا تھا۔ اگر پاکستان کے بلے باز جم کر کھیلتے اور 105 کے سکور پر ڈھیر ہونے کی بجائے 300 سے زائد سکور بناتے تو ویسٹ انڈیز کو ہرایا جا سکتا تھا۔ بلے بازوں نے بہت مایوس کن کارکردگی دکھائی۔

‎اب یہ کہنا کہ پاکستان کی ٹیم کبھی بھی حیران کر سکتی ہے والی دلیل اپنا وزن کھو چکی ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ایسا جواز صرف ناقص کارکردگی چھپانے  کے لیے پیش کیا جاتا رہا ہے۔

‎ویسٹ انڈیز کو معلوم تھا کہ پاکستانی بلے باز سپنرز کو بہت اچھے طریقے سے کھیل سکتے ہیں اس لیے انہوں نے آف سپنر ایشلے نرس کو باہر بٹھا کر اور کاسٹ موسم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تیز باؤلرز کو شامل کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

‎پاکستان نے آصف علی کو ان کے ذاتی صدمے کے باعث باہر رکھا۔ ویسٹ انڈیز کے باؤلرز نے پاکستان بلے بازوں کی کمزوری کو بھانپتے ہوئے سینے سے اوپر گیند کرائی اور باؤنسر مارے۔ پاکستان بلے بازروں نے اٹھتی ہوئی گیندوں کو کھیلنے کی کوشش میں اپنے قیمتی وکٹ ضائع کیں۔ اس طرح کا کھیل پیش کر کے نہ صرف انہوں نے میچ گنوا دیا بلکہ ورلڈ کپ میں کھیلنے والی دوسری ٹیموں کو اپنی کمزوری سے بھی آگاہ کر دیا ہے کہ یہ اٹھتی ہوئی گیند کے پیچھے جائیں گے۔ اب وہ بھی ان کے ’رب کیج‘ کو نشانہ بنائیں گے۔ لگتا ہے کہ انگلینڈ کے فاسٹ باؤلرز جوفرا آرچر، لیام پلینکٹ اور سٹوکس اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔

‎ اس گراؤنڈ میں پاکستان نے آخری بار 2001 میں آسٹریلیا کے خلاف میچ جیتا تھا۔ تب سے ہار کا یہ سلسلہ جاری ہے۔   

‎اوپننگ جو عمومی طور پر کسی میچ کے لیے بہت اہم ہوتی ہے وہ ویسٹ انڈیز کے کوٹرل نے بہت جلد توڑ دی جب بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے نوجوان امام الحق لیگ سائیڈ پر ہوپ کے ہاتھوں کیچ ہوئے۔ امام الحق نے اپنی وکٹ چاندی کی پلیٹ میں رکھ کر مخالف ٹیم کو تحفے کے طور پر پیش کی۔ وہ بلے بازوں کی جنت اس پچ کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔ ان کے بعد پاکستان کے مایہ ناز بلے باز بابر اعظم میدان میں اترے جنہوں نے فخر کے ساتھ مل کر کھیلنا شروع کیا۔ وکٹ بالکل سیدھی اور فلیٹ تھی۔

فخر نے بھی امام الحق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس وقت اپنی وکٹ کا تحفہ آندرے رسل کو ایسے پیش کیا جیسے کوئی بچپن کا دوست سالگرہ کا تحفہ دیتا ہے۔ فخر بہت آسانی کے ساتھ کھیل رہا تھا اور لگتا تھا کہ وہ ایک لمبی اننگز کھیلیں گے جس کی پاکستان کو ضرورت تھی۔ پاکستانی کھلاڑیوں نے چھوٹی چھوٹی غلطیاں کر کے بڑی بڑی وکٹیں ضائع کیں۔ اوپنرز کی وکٹیں اچھی باؤلنگ کی بجائے بلے بازوں کی غلطیوں سے ضائع ہوئیں۔

فخر کے جانے کے بعد سارا بوجھ بابر اعظم کے کندھوں پر آ گیا تھا۔ رسل کے مسلسل اور محنت کے ساتھ شارٹ گیند کرانے پر حارث سہیل نے انہیں اپنی وکٹ پیش کر دی۔ حارث سہیل کے بلے کا کنارہ لیتے ہوئے گیند وکٹ کیپر کے گلوز میں گئی اور پاکستان شدید مشکل کا شکار ہو گیا۔ میں یہ کہتی رہی ہوں کہ پاکستان کو پہلے کھیل کر مخالف ٹیم کو آؤٹ کرنا چاہئے مگر اس کا مقصد یہ نہیں کہ پاکستان اپنی قیمتی وکٹیں اور وہ بھی اوپننگ بیٹسمینوں کی وکٹیں گنواتا رہے۔

پہلے دس اوورز کے بعد پاکستان کا سکور 45 تھا اور اس کے تین کھلاڑی پویلین کی راہ دیکھ چکے تھے۔ اس سکور پر چار بھی آؤٹ ہو چکے ہوتے مگر بابر اعظم کا کیچ چھوٹ گیا۔ بابر اعظم زیادہ دیر نہ ٹک سکے اور پھر پاکستانی بلے بازوں کا قافلہ پوری رفتار سے پویلین کی راہ پر چل نکلا۔ سرفراز کے دستانے سے لگ کر کیچ ہوا اور امام، شاداب، حسن سمیت کوئی کارکردگی دکھائے بغیر ہنسی خوشی واپس روانہ ہوئے۔

‎پاکستان کی اس ناقص کارکردگی پر مجھے کرکٹ کے شائقین پاکستانیوں کی آنکھوں میں مایوسی نظر آئی۔ بعض کی آنکھوں میں آنسو تھے اور کچھ اپنے آنسو ضبط کئے دل میں رو رہے تھے۔

‎کرکٹ پختہ یقین اور یکسو ذہن کے ساتھ کھیلی جانے والی گیم ہے۔ لگتا نہیں کہ اس ناقص کارکردگی کے بعد صرف دو دن کے بعد انگلینڈ کے خلاف میچ میں پاکستان کی ٹیم صدمے سے باہر نکل سکے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم دراصل پی سی بی میں بیٹھے ضرورت سے زیادہ ماہرین  کی مہارتوں کے ہاتھوں تباہ ہو رہی ہے جو ٹویٹر پر پاکستانی ٹیم کے 11 کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان کرتے ہیں اور کپتان کو محض کٹھ پتلی ثابت کرنے پر تلے ہیں۔

‎پاکستانی قوم وقتی ناکامیوں سے کبھی مایوس نہیں ہوئی اور انہیں اب بھی امید ہے کہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک کلب کی ٹیم جیسی کارکردگی دکھانے والی ٹیم اگلے میچوں میں بہتر کھیل پیش کرے گی اور بلے باز اب اٹھتی ہوئی گیندوں کو کھیلنے کی بجائے انہیں چھوڑ کر باؤلروں کو تھکائیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر