فاٹا انضمام کے خلاف جرگوں میں شدت کیوں آرہی ہے؟

سابقہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے خلاف دیگر چھوٹے بڑے جرگے تقریباً ہر دوسرے تیسرے دن قبائلی اضلاع میں انضمام کے پہلے دن سے منعقد ہوتے آرہے ہیں۔

انضمام کی مخالفت میں دیگر دلائل پیش کرتے ہوئے فاٹا قومی جرگہ کے رہنما نے بتایا کہ وہ اس لیے بھی انضمام کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں کہ ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے گئے(تصویر: آل فاٹا قومی جرگہ)

قبائلی اضلاع کے انضمام سے ناخوش قبائلیوں نے گزشتہ روز 30 اکتوبر کو یہ دھمکی دی ہے کہ اگر انضمام کو ختم نہیں کیا گیا تو بہت جلد ہزاروں قبائلی احتجاج کے لیے پشاور اور اسلام آباد کا رخ کریں گے۔

جرگے کے رہنما و سابق سینیٹر حمیداللہ جان آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’قبائلی ایک غریب صوبائی حکومت کی بجائے ایک مالدار وفاقی حکومت کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ انضمام کی وجہ سے ان کی پشتون روایات کو نقصان پہنچا ہے۔‘

مزید تفصیلات کے مطابق انضمام کا فیصلہ واپس لینے کے لیے ایک سیاسی جرگہ بروز ہفتہ وزیرستان میں منعقد ہوا جس میں تمام قبائلی اضلاع کے ارکان پارلیمان، علما اور قبائلی عمائدین نے شرکت کی۔

جب کہ دوسرا جرگہ بھی ہفتے ہی کے دن ضلع خیبر میں ’فاٹا قومی جرگہ‘ نے منعقد کیا، جس میں عمائدین علاقہ نے قبائلی انضمام کے خلاف شرکا سے خطاب کیا۔

اسی سلسلے میں 22 اکتوبر کو بھی ایک جرگہ ضلع اورکزئی میں منعقد کیا گیا تھا جس میں فاٹا انضمام کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

سابقہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے خلاف دیگر چھوٹے بڑے جرگے تقریباً ہر دوسرے تیسرے دن قبائلی اضلاع میں انضمام کے پہلے دن سے منعقد ہوتے آرہے ہیں۔

انضمام کی حمایت کرنے والوں کا تاثر یہ ہے کہ قبائلیوں پر انگریز دورسے فرنٹئیر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) مسلط کیا گیا تھا جس کے بارے میں کئی دہائیوں سے نعرے بلند ہورہے تھے کہ یہ ایک ’غیر انسانی‘ اور ’کالا قانون‘ ہے، جسے اب بدل دیا گیا۔ 

انضمام کے مخالفین کی دلیل

فاٹا قومی جرگہ کے رہنما ملک بسم اللہ خان آفریدی نے قبائلی اضلاع میں انضمام کے بعد جنم لینے والے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایف سی آر کی صرف تین شقوں میں مسئلہ تھا جب کہ باقی نظام ان کے لیے قابل قبول تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ایف سی آر کا سب سے ناقابل قبول شق 21 اور 22 دراصل پشتون روایات کے مطابق تھیں۔ کیونکہ پشتون معاشرے میں بھی ایک شخص کے جرم کا انتقام خاندان کے دیگر افراد سے لیا جاتا ہے۔‘

’ایف سی آر کی ناقابل قبول شقوں میں تبدیلی کی جاسکتی تھی، لیکن اس کے برعکس فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے ہماری پشتون روایات کو نقصان پہنچا ہے۔ ساتھ ہی انصاف کا حصول پیچیدہ، اور سست روی کا شکار ہوگیا ہے۔‘

ملک بسم اللہ خان نے بتایا کہ انضمام کے بعد زمینوں کے تنازعے بھی خطرناک شکل اختیار کر گئے ہیں۔

ان کے مطابق ’انضمام سے قبل جب زمین کے تنازعے پر دو قبیلوں میں جنگ چھڑ جاتی تو وہ تب تک جاری رہتی جب تک عمائدین اور پولیٹیکل ایجنٹ ضامن نہ بن جاتے۔ اب جب جنگ چھڑتی ہے تو وہ خطرناک شکل اختیار کرتی ہے کیونکہ حکومتی مشینری پوری طرح سے فعال نہیں ہے، اور عمائدین قانوناً ضامن نہیں بن سکتے۔‘

انہوں نے حال ہی میں ضلع کرم میں پیش آنے والے واقعے کو مثال کے طور پر پیش کیا۔ جس میں دو قبیلوں کے درمیان مشترکہ جائیداد کے تنازعے پر چھڑنے والی جنگ کے نتیجے میں 13 افراد جان سے گئے۔

انضمام کی مخالفت میں دیگر دلائل پیش کرتے ہوئے فاٹا قومی جرگہ کے رہنما نے بتایا کہ وہ اس لیے بھی انضمام کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں کہ ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے گئے۔

ان کے مطابق ’انضمام کے بعد تعلیمی اداروں اورسرکاری ملازمتوں میں قبائلیوں کا کوٹہ ختم کر دیا گیا۔ سالانہ 100 ارب دینے اور این ایف سی ایوارڈ میں تین فیصد دینے کا وعدہ پورا نہ ہوا۔ 25 ہزار لیویز بھرتی کرنے کا وعدہ کیا تھا، الٹا لیویز فورس ہی ختم کر دی گئی۔‘

 بسم اللہ خان نے کہا کہ ’انضمام کے وقت کہا گیا تھا کہ قبائلی اضلاع دس سال تک ’ٹیکس فری زون‘ رہیں گے۔ لیکن انضمام کے بعد ان پر ہر طرح کا ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔

سابقہ فاٹا کا انضمام مغربی دباؤ کے تحت ہوا

سابق سینیٹر حمیداللہ جان آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’قبائلیوں سے مشاورت کیے بغیر جلد بازی میں قبائلیوں کو ایک ناقص نظام دیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ انضمام کے پیچھے مغربی ایجنڈا بھی شامل ہے۔‘

اپنے بیان کے دفاع میں انہوں نے بتایا کہ ’انضمام سے قبل بعض مغربی اداروں جیسے کہ امریکی قونصلیٹ جنرل نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی۔‘

حمیداللہ جان نے بتایا کہ ’سابقہ فاٹا کے نظام میں بعض خامیاں تھیں جن میں تبدیلی لاکر درست کیا جا سکتا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم کبھی بھی انضمام کے حق میں نہیں تھے۔ انضمام قبائلیوں پر مسلط کیا گیا ہے جو کہ پاکستانی آئین کے آرٹیکل 247-6 کی خلاف ورزی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک غریب صوبائی حکومت کی بجائے ہم ایک مالدار وفاقی حکومت کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیں گے۔‘

انضمام کا ساتھ دینے والے قبائلیوں کی دلیل

ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے ’آل فاٹا یوتھ جرگہ‘ کے ایگزیکیٹو رکن اختر گل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’انضمام سے قبائلی اضلاع کو صوبائی نمائندگی مل گئی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’قبائلیوں کے مسائل سست روی کے ساتھ لیکن حل ہورہے ہیں۔ ٹی ایم اے دفاتر آگئے ہیں۔ عدالتیں کھل گئی ہیں، جہاں کیسز پر کام ہورہا ہے۔1122 کے سٹیشنز تمام اضلاع میں پھیلا دیے گئے ہیں۔ جائیداد کے تنازعات حل کرنے کے لیے ریٹائرڈ تحصیلداروں کو بھرتی کر کے پٹواری نظام شروع ہوگیا ہے۔‘

اختر گل نے بتایا کہ ’حال ہی میں تمام یونین کونسلوں میں غربا کی امداد کے لیے 28 لاکھ کی رقم چئیرمین زکوۃ کو مل گئی ہے۔ پہلے ایک تحصیل کو صرف سات آٹھ لاکھ ملتے تھے۔ بلدیاتی الیکشن میں قبائلی اضلاع کو مزید فائدہ ہوگا۔‘

اخترگل نے کہا کہ ’فنڈز کے حوالے سے حکمران جماعت کو اپنا دفاع کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں کوٹہ واپس لینے اور فنڈز کا اجرا نہ کرنے سے بعض ایسے لوگ بھی مایوس ہوگئے ہیں جو حکومت کے لیے مہم چلاتے رہے ہیں۔‘

تاہم دوسری جانب فنڈز کے حوالے سے صوبائی وزیرخزانہ تیمور جھگڑا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’خیبر پختونخوا حکومت نے قبائلی اضلاع کو انضمام کے بعد اپنے بجٹ سے 15 ارب روپے دیے اور مزید فنڈز فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے،جب کہ باقی صوبے اپنے وعدے سے منحرف ہوگئے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان