بلوچستان کا نیا وزیراعلیٰ، پرانی کابینہ

لازمی نہیں کہ وزیراعلیٰ ہر وقت ہر وزیر کے ساتھ مسکرائیں بلکہ بطور کپتان انہیں ذہنی طور پر تیار ہونا چاہیے کہ بعض اوقات انہیں وزرا اور سرکاری ملازمین کوعوامی مفاد میں خود احتسابی کے عمل سے گزارنا ہوگا۔

سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی اور نئے وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو۔ قدوس بزنجو نے کھلے عام جس پھرتی کا مظاہرہ کیا ہے وہ جمہوری اصولوں کے سراسر منافی ہے (تصویر: بلوچستان اسمبلی ویب سائٹ) 

بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) میں بغاوت کے نتیجے میں پارٹی کے سابق صدر اور صوبے کے وزیراعلیٰ جام کمال کے استعفے نے ایک بار پھر اس سوال کو جنم دیا ہے کہ بلوچستان میں حکومتیں یا وزرائے اعلیٰ کیوں دیر تک نہیں چل پاتے۔

کیا بلوچستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ اسلام آباد کی نہ ختم ہونے والی مداخلت ہے یا اس کے برعکس صوبے کے معاملات میں اسلام آباد کی عدم دلچسپی حالات کو اس نہج پر پہنچانے کی ذمہ دار ہے۔

کچھ ناقدین یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا بلوچستان کے سیاسی رہنما اپنا صوبہ چلانے کےاہل ہیں یا نہیں یا انہیں ہر وقت اسلام آباد کا ہاتھ تھام کرچلنا پڑے گا۔ کیا اسلام آباد بلوچستان کے رہنماؤں کو کچھ دیر کے لیے یہ سوچے بغیر ان کے حال پر چھوڑ سکتا ہے کہ یہ ایک دوسرے سے دست وگریبان نہیں ہوں گے؟

جب جام کمال کے خلاف ان ہی کے دست راست رہنما بغاوت پر اتر آئے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں کی بغاوت پر کم اور پاکستان تحریک انصاف کی مداخلت کو زیادہ جواز بنا کر وزیراعظم عمران خان سے گزارش کی کہ وہ اس صورت حال میں اپنا کردار ادا کریں، لیکن وزیراعظم نے اس معاملے میں غیرجانبداراور لاتعلق رہنے کو ترجیح دی۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ جام کمال کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں تھا اور ماضی میں جب مسلم لیگ ق، نواز یا پیپلز پارٹی کے وزرائے اعلیٰ کو اس طرح کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا تو کم از کم وفاقی حکومت اختلافات ختم کرنے کی کوشش کرتی لیکن بی اے پی چونکہ ایک قومی پارٹی نہیں ہے بلکہ صرف بلوچستان تک محدود ہے تو بلوچستان میں مقیم پارٹی قیادت ہی سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اپنے تمام اختلافات مقامی سطح پر حل کریں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ یہ جماعت اس قدر نئی ہے کہ یہ بلوغت کے اس مقام تک نہیں پہنچی ہے کہ اس کے پاس اندرونی خلفشاراور اختلاف رائے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کا نسخہ ہو۔

تاہم وزیراعظم اگر اس معاملے میں مداخلت کرتے تو شاید وہ اس بحران کو ٹالنے میں مدد کرسکتے تھے۔

جام کمال کے استعفے کو کچھ لوگ محض ایک ایسے شخص کی رخصتی سمجھتے ہیں جو بقول ان کے اپنے ساتھیوں کے لیے سویلین آمر تھا۔ وہ اہم وزارتیں اپنے پاس رکھتے تھے۔ بلوچستان کو واٹس ایپ اور ٹوئٹر کے ذریعے چلاتے تھے لیکن ان کا جانا ایک شخص سے زیادہ ایک کمزور نظام کی نشان دہی کرتا ہے، جس پر ہر کسی کو تشویش ہونی چاہیے۔

جب کوئی وزیراعلیٰ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ ان کی کابینہ بھی تحلیل ہوتی ہے۔ جو منصوبے سابق وزیراعلیٰ کی کابینہ نے شروع کیے تھے وہ تعطل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کے روزمرہ کے کام مزید پھنس جاتے ہیں۔ صوبائی مشینری نئے وزیراعلیٰ اور کابینہ کے آنے تک جمود کا شکار رہتی ہے۔

دوسری جانب نئے وزیراعلیٰ اور کابینہ بدستور اس دباؤ میں رہتے ہیں کہ وہ کچھ ایسا کام کریں جس سے لگے کہ وہ سابق وزیراعلیٰ یا وزرا سے یکسر مختلف ہیں۔ جب تک یہ فیصلہ ہو کہ نیا سیٹ اپ کیا کرے اور ترجیحات کیا ہوں تو وہ وقت آجاتا ہے جب سیاست دان حکومتی معاملات میں دلچسپی کھو کر اگلے انتخابات کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ یوں حکومتی پالیسیوں میں تسلسل نہیں رہتا۔

نئے وزیراعلیٰ بدستور اس خوف کا شکار ہوتے ہیں کہ وہ کس طرح اپنے وزرا کو خوش رکھیں۔ وزیراعلیٰ حاتم طائی نہیں ہوتا کہ جو وزیر چاہے وہ اسے اس ڈر سے نواز دے کہ کل کو وہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا حصہ نہ بنے۔ وزیراعلیٰ کپتان ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو وہ خود کو جی حضور اور خوش آمدی وزیروں اور مشیروں سے بچائیں۔ وزیراعلیٰ میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے وزیروں کا احتساب کرسکے۔ ان سے مشکل سوالات پوچھے۔ ان میں یہ اہلیت ہونی چاہیے کہ  وہ بلاجھجک کسی وزیر یا سیکرٹری سے یہ پوچھ سکیں کہ فلاں منصوبہ تاحال کیوں مکمل نہیں ہوا یا اس پر تخمینے کے برخلاف خرچہ کیوں آ رہا ہے۔

لازمی نہیں ہے کہ وزیراعلیٰ ہر وقت ہر وزیر کے ساتھ مسکرائیں اور انہیں خوش رکھیں کیونکہ یہ تو وزیراعلیٰ کا کام نہیں بلکہ بطور کپتان انہیں ذہنی طور پر تیار ہونا چاہیے کہ بعض اوقات انہیں وزرا اور سرکاری ملازمین کوعوامی مفاد میں خود احتسابی کے عمل سے گزارنا ہوگا خواہ وہ انہیں کتنا ہی ناخوشگوار کیوں نہ لگے۔ یہ سب کچھ  ان کے عہدے کا تقاضہ ہوتا ہے لیکن اگر وزیراعلیٰ کا مقصد صرف اور صرف وزیروں اور اتحادیوں کو خوش رکھنا ہے تو پھر اس کا نقصان اداروں اور جمہوری عمل کو ہوگا۔

مثال کے طور پر جام کمال کے بارے میں کوئٹہ کے بزرگ صحافی انور ساجدی نے لکھا ہے کہ ان کے وزرا ان کی ’انگریزی عادات‘ سے نالاں تھے یعنی وہ وقت کے بڑے پابند تھے۔ بقول کالم نگار: جام صاحب ’صبح جلدی اٹھتے ہیں اور بعض اوقات اگلی صبح تک جاگتے ہیں۔ کئی اہم افسران ان کو رات تین بجے بھی فون کرکے تنگ کرتے تھے۔‘ وقت پر اٹھنا اورہر کام وقت پر کرنا ایک بنیادی انسانی صفت ہونی چاہیے جو ہم سب میں ہو۔ اسے ہم صرف ’انگریزی عادت‘ نہ سمجھیں۔

وقت کی پابندی زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی کے لیے لازمی ہے۔ وزیراعلیٰ سے اختلاف کے ایک ہزار بہانے ہوسکتے ہیں لیکن وزیراعلیٰ  سے وقت کے سخت پابند ہونے پر ناراض ہونے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان یا بلوچستان ہائی کورٹ یا ملک کے کسی مجاز ادارے نے بلوچستان اسمبلی کے سابق سپیکر اور اب وزارت اعلیٰ کے عہدے کے امیدوار قدوس بزنجو سے یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ بطور سپیکر انہیں غیرجانب دار ہونا چاہیے تھا۔ جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں قدوس بزنجو نے کھلے عام جس پھرتی اور نقل وعمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ جمہوری اصولوں کے سراسر منافی ہے۔

حیرت ہے کہ ملک میں کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے جو اس طرح کے رویے کی حوصلہ شکنی کرے اور سپیکر کے عہدے کے تقدس کو پامال کرنے کی پاداش میں ان کے اس عہدے پر رہنے یا نہ ہرنے کا فیصلہ کرے۔ ایسا کرنا اس لیے بھی لازمی ہے کہ جمہوریت افراد سے زیادہ اداروں کی بالادستی ہی سے پنپتی ہے اور غیرجمہوری عمل کو بروقت ٹوکا نہ گیا اور اس کی اصلاح نہیں کی گئی تو یہی رویہ مستقبل میں دوبارہ ایک بدتر روپ میں نمودار ہوسکتا ہے۔

جام کمال کے خلاف اتنی بڑی کامیاب بغاوت ہوئی لیکن تاحال یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ جام اور ان کے وزرا کے درمیان بنیادی طور پر کن پالیسیوں پراختلاف رہا۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک گروہ بلوچ مسلح تنظیموں سے مذاکرات کے حق میں تھا اوردوسرا اس کےخلاف۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ لاپتہ افراد کے معاملے یا گوادر میں باڑ لگانے کے مسئلے پر ان میں اختلاف تھا۔ جمہوری معاشرے میں پالیسی ایشوز پر اختلافِ رائے بڑی صحت مند چیز ہوتی ہے۔

معاملات پر بحث و مباحثہ کرنے اور مختلف رائے دینے سے جمہوری عمل مضبوط تر ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے بلوچستان میں موجودہ بحران پالیسیوں پر اختلاف کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ یہ محض شخصیات اور بڑی انا کے درمیان ٹکراؤ کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پتہ نہیں چل رہا کہ قدوس بزنجو کی پالیسیاں کیا ہوں گی؟

جن وزرا کے ساتھ جام کمال اگر عوام کے مسائل حل نہیں کرسکے تو پھر وہ انہی وزرا کے ساتھ دوبارہ کیسے صوبے کے مسائل حل کریں گے؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ قدوس بزنجو اس وقت کیا کریں گے جب ان کے سامنے ان ہی کے ساتھیوں مییں سے ایک اور عبدالقدوس علم بغاوت لے کر کھڑا ہوگا؟ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ 

کیا بلوچستان کے لوگ اس انتشار، افراتفری اور سیاسی عدم استحکام سے بہتر کے حق دار نہیں ہیں؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ