ظاہر جعفر کی کمرہ عدالت میں مشکوک حرکات اور پولیس سے ہاتھا پائی

کمرہ عدالت میں پہنچنے کے کچھ دیر بعد جج کے سامنے کھڑے مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے تیز آواز میں باتیں کرنا شروع کر دیں، وہ کسی کا نام لے رہے تھے اور جج صاحب سے بات کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے۔

سابق پاکستانی سفارت کار کی صاحبزادی نور مقدم کے قتل کے مقدمے کی سماعت کے دوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر کمرہ عدالت میں شور مچاتے رہے جس پر انہیں پولیس اہلکار باہر لے جانے لگے تو وہ ان سے گتھم گتھا ہو گئے۔

اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج محمد عطا ربانی کی عدالت میں بدھ کو نور مقدم قتل کیس کی سماعت شروع ہوئی تو پولیس مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت زیر حراست ملزمان کو کمرہ عدالت میں لے کر آئی۔

کمرہ عدالت میں پہنچنے کے کچھ دیر بعد جج کے سامنے کھڑے مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے تیز آواز میں باتیں کرنا شروع کر دیں، وہ کسی کا نام لے رہے تھے اور جج صاحب سے بات کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے۔

ظاہر جعفر بار بار کہتے رہے: ’میری کورٹ ہے، میں یہاں رہ کر جج سے بات کرنا چاہتا ہوں۔‘

مرکزی ملزم کے چلانے کے باعث ایڈیشنل اینڈ ڈسٹرکٹ سیشن جج محمد عطا ربانی نے پولیس کو حکم دیا کہ وہ ظاہر جعفر کو باہر لے جائیں، تاہم مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے یقین دہانی کرائی کہ اب وہ خاموش رہیں گے۔ ’میں اب نہیں بولوں گا۔‘

اس کے بعد ظاہر جعفر کمرہ عدالت کے مرکزی دروازے کے پیچھے کھڑے رہے۔ تاہم کچھ دیر بعد انہوں نے دوبارہ بولنا شروع کر دیا اور عجیب سے فقرے بولتے رہے۔

تھوڑی دیر بعد مرکزی ملزم نے کمرہ عدالت میں لگے ایک پردے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’اس پردے کے پیچھے کیا ہے؟، ’میں اور میری فیملی انتظار کر رہے ہیں۔‘

مرکزی ملزم کی مشکوک حرکات کے باعث ایک موقعے پر جج محمد عطا ربانی نے کہا کہ ’ملزم ڈرامے کر رہا ہے، اسے عدالت سے لے جائیں۔‘

جج نے مرکزی ملزم کی والدہ عصمت جعفر، جو خود بھی اس مقدمے میں ملزم ہیں، کو کٹہرے میں بلا کر کہا کہ ’آپ اپنے بچے کو سمجھائیں، وہ کمرہ عدالت میں کیا کر رہا ہے۔‘

اس پر عصمت جعفر نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’آپ کو پتہ ہے اس کی حالت کیا ہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جبکہ ملزمہ عصمت جعفر کے وکیل اسد جمال نے کہا کہ ’ہم اس (مرکزی ملزم) کا علاج کر لیتے ہیں۔‘

جس پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد عطا ربانی نے کہا کہ ملزم کو آرام سے سمجھانا ہے۔

اس پر وکیل اسد جمال نے کہا کہ مرکزی ملزم پر تشدد تو نہیں کیا جا سکتا۔

جج محمد عطا ربانی نے کہا کہ وہ مرکزی ملزم کو توہین عدالت کا نوٹس نہیں دیں گے، لیکن جیل ٹرائل شروع کر دیں گے۔

عدالت کے حکم پر پولیس نے مرکزی ملزم کو کمرہ عدالت سے لے جانے کی کوشش کی تو انہوں نے مزاحمت کا مظاہرہ کیا اور نصف درجن پولیس اہلکاروں کو انہیں پکڑ کر کھینچتے ہوئے باہر لے جانا پڑا۔

اس دوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے ایک پولیس انسپکٹر مصطفی کیانی کا گریبان بھی پکڑ لیا۔

کمرہ عدالت سے باہر بھی پولیس اہلکاروں کو ملزم ظاہر جعفر کو قابو میں رکھنے میں مشکل رہی اور مزید کمک منگوائی گئی اور تقریباً ایک درجن اہلکار انہیں وہاں سے لے جانے میں کامیاب ہوئے۔

نور مقدم قتل کیس کی سماعت کے دوران نقشہ نویس عامر شہزاد کا بیان ریکارڈ ہوا، جبکہ ملزمان کے وکلا نے اس پر جرح بھی کی۔

تاہم مرکزی ملزم کے وکیل بشارت اللہ عدالت میں موجود نہ ہونے کے باعث گواہ کی جرح نہ کر سکے۔

نور مقدم قتل کیس

یاد رہے کہ 20 جولائی کو سابق پاکستانی سفارت کار کی 28 سالہ بیٹی نور مقدم کی لاش اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون فور کے ایک گھر سے برآمد ہوئی تھی۔

جب کہ پاکستان کی ایک بڑے کاروباری خاندان سے تعلق رکھنے والے ظاہر جعفر کو بھی اس گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔

نور مقدم قتل کیس میں ظاہر جعفر مرکزی ملزم ہیں جبکہ ان کے والدین اور تین گھریلو ملازمین پر جرم کی اعانت اور حقائق چھپانے کے الزامات لگائے گئے ہیں اور وہ زیر حراست ہیں۔

تھیراپی ورکس نامی ادارے کے مالک سمیت چھ اہلکاروں پر بھی اعانت کے الزامات ہیں تاہم وہ ضمانت پر رہا ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان