بھارت میں پولیس تقریباً 100 سوشل میڈیا صارفین کو تلاش کر رہی ہے جن پر ریاست تری پورہ میں مساجد پر بلوائیوں کے حملوں کے بعد ’جعلی خبریں‘ شیئر کرنے کا الزام ہے۔
بھارت کی شمال مشرقی اس ریاست میں گذشتہ ماہ ہندو قوم پرست گروپ کے سینکڑوں بلوائیوں نے بنگلہ دیش میں ہندو مخالف تشدد کے جواب میں کئی مسلمانوں کی املاک اور مساجد پر حملے کیے تھے۔
انہوں نے چار مساجد میں توڑ پھوڑ کی اور مسلمانوں کے متعدد مکانات اور دکانوں کو نذر آتش کر دیا۔
بھارتی پولیس کے مطابق مزید تشدد کو ہوا دینے والے لوگوں نے ان واقعات کے بعد سوشل میڈیا پر گمراہ کن تصاویر شیئر کیں۔
ریاست کے ایک سینیئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اتوار کو اے ایف پی کو بتایا: ’جن اکاؤنٹس کی نشاندہی کی گئی ہے وہ افواہیں، جعلی خبریں، جعلی ویڈیوز اور جعلی تصاویر پھیلا رہے تھے، ان کا تعلق تری پورہ سے بھی نہیں تھا۔
’اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن اس طرح کے من گھڑت مواد پھیلانے والوں کو شناخت کرکے گرفتار کیا جائے گا۔‘
ہفتے کو میڈیا کو جاری کی گئی ایک پولیس رپورٹ میں 102 پوسٹس کی نشاندہی کی گئی جس میں کہا گیا کہ ’نامعلوم شرپسندوں‘ نے ’مختلف مذہبی برادریوں کے لوگوں‘ کے درمیان تنازعے کو ہوا دینے کے لیے ان پوسٹس کا استعمال کیا تھا۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس نے فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب کو خط لکھ کر ان پوسٹوں کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس کے بعد زیادہ تر پوسٹس اتوار تک ہٹا دی گئی تھیں۔ زیادہ تر پوسٹس میں حملوں میں نشانہ بنائے گئے مسلمانوں کی حالت زار کو اجاگر کیا گیا تھا۔
نئی دہلی میں مقیم ایک بھارتی صحافی کی ایک پوسٹ میں لکھا تھا: ’تری پورہ جل رہا ہے!۔‘
ان حملوں کے بعد ریاست میں ہائی الرٹ ہے اور مساجد کی حفاظت پر سکیورٹی فورسز مامور ہیں۔ پولیس نے چار سے زیادہ افراد کے اجتماع پر پابندی بھی لگا رکھی ہے۔
تری پورہ میں ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بھارت کی اقلیتی مسلم برادری کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ 2014 میں ہندو قوم پرست جماعت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے انہیں حملوں اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔
ہفتے کو ملک کے مسلم گروپوں کے اتحاد کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا: ’ریاستی حکومت نے تشدد کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف ابھی تک کوئی بڑی کارروائی شروع نہیں کی۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’وہ پولیس افسران جنہوں نے تشدد کو نہیں روکا، ان کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے اور ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔‘